ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حج میں جس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حجۃ الوداع سے پہلے امیر بنایا تھا، اس جماعت میں شامل کر کے بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر رہی تھی: لوگو! سن لو! اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کر سکے گا اور نہ کوئی ننگا ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2960]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2960
اردو حاشہ: یہ 9 ہجری کی بات ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ 8 ہجری کے حج سے قبل فتح ہو چکا تھا مگر اس سال نہ تو رسول اللہﷺ نے خود حج کیا اور نہ کسی کو امیر حج مقرر فرمایا بلکہ آپ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے گورنر حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حج ہوا لیکن یہ حج سابقہ طریقے کے مطابق کیا گیا کیونکہ ابھی حج کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی فصیل نازل نہیں ہوئی تھی بلکہ بہت سے محققین کے قول کے مطابق حج کی فرضیت ہی 9 ہجری میں نازل ہوئی۔ 9 ہجری میں نبیﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں نے ان کی سرکردگی میں اسلامی طریقے کے مطابق حج کیا مگر اس سال کافر بھی بڑی تعداد میں حج کرنے آئے تھے۔ انھوں نے اپنے طریقے کے مطابق حج کیا۔ نبیﷺ کے حکم کے مطابق منیٰ میں جگہ جگہ اعلانات کر دیئے گئے کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے۔ 10 ہجری میں رسول اللہﷺ بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ تقریباً تمام مسلمان بھی موجود تھے۔ آپ نے خالص اسلامی طریقے کے مطابق حج کروایا۔ اس سال کوئی مشرک موجود نہ تھا۔ یہ نبیﷺ کی زندگی کا بھی آخری سال تھا۔ تین ماہ بعد آپ اپنے ”رفیق اعلیٰ“ سے جا ملے۔ فداہ نفسي وروحي وابي وامي۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2960