عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ(ایام جاہلیت میں) عورت یہ شعر پڑھتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف ننگی ہو کر کرتی تھی۔ «اليوم يبدو بعضه أو كله وما بدا منه فلا أحله»”آج کے دن جسم کا کل یا کچھ حصہ ظاہر ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی ظاہر ہو رہا ہے میں اس کو مباح نہیں کر سکتی“(کہ لوگ اسے دیکھیں یا ہاتھ لگائیں) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر یہ آیت اتری: «يا بني آدم خذوا زينتكم عند كل مسجد»”اے بنی آدم! جس کسی بھی مسجد میں جاؤ اپنا لباس پہن لیا کرو“(الأعراف: ۳۱)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2959]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2959
اردو حاشہ: (1) ننگے طواف کرنا یا تو بطور نذر ہوتا تھا یا اس تصور سے کہ ہم ان کپڑوں میں گناہ کرتے رہے ہیں، لہٰذا ان میں طواف مناسب نہیں، اس لیے وہ اپنے کپڑوں کے بجائے ساکنین حرم کے کپڑوں میں طواف کرتے تھے (کیونکہ وہ انھیں مقدس سمجھتے تھے)۔ اگر ان سے کپڑے نہ ملتے تو رات کے اندھیرے میں یا دوپہر کے وقت آنکھ بچا کر ننگے بدن طواف کر لیتے تھے۔ اور اس کے ساتھ وہ زبان سے مذکورہ بالا اعلان اشعار کی صورت میں کرتے تاکہ اگر کوئی اتفاقاً ادھر آنکلے تو منہ دوسری طرف پھیر لے اور اس کی نظر نہ پڑے۔ (2)”ہر مسجد میں“ یعنی صرف طواف کے لیے ہی لباس پہننا ضروری نہیں بلکہ نماز میں بھی لباس پہننا فرض ہے۔ چونکہ مسجد نماز ہی کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے مسجد کے لفظ سے نماز کی طرف اشارہ ہے۔ ویسے بھی مسجد میں ننگا ہونا منع ہے کیونکہ یہ مسجد کے تقدس کے خلاف ہے۔ (3) اس آیت مبارکہ میں لباس کے لیے ”زینت“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ گویا عبادات کے دوران میں مکمل اور صاف ستھرا لباس پہننا چاہیے جو حقیقتاً زینت کا سبب ہو اور ساتر ہو، نہ کہ اعضائے مستورہ کی نمائش اور ترجمانی کرنے والا۔ (4) زینت کے لفظ سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ نماز میں سر بھی ڈھانپا ہوا ہونا چاہیے کیونکہ لباس، زینت تب ہی بنے گا جب سر بھی ڈھانپا ہوا ہوگا۔ ویسے بھی رسول اللہﷺ عموماً سر کو ڈھانپ کر رکھتے تھے، اس لیے نماز ہی کی حالت میں سر کا ڈھانپنا سنت کے زیادہ قریب نہیں ہے بلکہ ہر وقت اور ہر جگہ ہی سر کو ڈھانپے رکھنا مسنون عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2959