الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
187. بَابُ : غَسْلِ الْمَنِيِّ مِنَ الثَّوْبِ
187. باب: کپڑے سے منی دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 296
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْجَزَرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت:" كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ لَفِي ثَوْبِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کا اثر دھوتی تھی ۱؎، پھر آپ نماز کے لیے نکلتے، اور پانی کے دھبے آپ کے کپڑے پر باقی ہوتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 296]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضوء 64 (229، 230)، 65 (231)، صحیح مسلم/الطھارة 32 (289)، سنن ابی داود/فیہ 36 (373)، سنن الترمذی/فیہ 86 (117)، سنن ابن ماجہ/فیہ 81 (536)، (تحفة الأشراف: 16135)، مسند احمد 6/48، 142، 162، 235 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں اس سے مراد منی ہے، اور منی ایک قسم کی رطوبت ہے جو مرد کی شرمگاہ سے شہوت کے وقت اچھلتے ہوئے خارج ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخارييخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء في ثوبه
   صحيح البخاريتغسل المني من ثوب النبي ثم أراه فيه بقعة أو بقعا
   صحيح البخاريأغسله من ثوب رسول الله فيخرج إلى الصلاة وأثر الغسل في ثوبه بقع الماء
   صحيح البخاريأغسله من ثوب رسول الله ثم يخرج إلى الصلاة وأثر الغسل فيه بقع الماء
   صحيح مسلميغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب وأنا أنظر إلى أثر الغسل فيه
   سنن أبي داودتغسل المني من ثوب رسول الله قالت ثم أرى فيه بقعة أو بقعا
   سنن النسائى الصغرىيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه
   بلوغ المراميخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه
   مسندالحميديولم غسله؟ إني كنت لأفرك المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 296 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 296  
296۔ اردو حاشیہ:
➊ جنابت سے سبب جنابت، یعنی منی مراد ہے۔ منی کو کپڑے سے دھونے سے معلوم ہوتا ہے کہ منی پلید ہے اور یہ جمہور اہل علمم کا موقف ہے۔ ان کے بقول مخرج کے لحاظ سے بھی یہ بات زیادہ قوی ہے۔ سابقہ حدیث میں لفظ «أذي» بھی مؤید ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن مجید میں حیض کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور حیض بالاتفاق پلید ہے، جب کہ بعض حضرات جن کے سرخیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، منی کو پاک سمجھتے ہیں۔ باقی رہا دھونا تو یہ نجاست کی دلیل نہیں، بلکہ نظافت کے لیے بھی دھویا جا سکتا ہے، جیسے ناک کی غلاظت یا بلغم وغیرہ کپڑے کو لگ جائے، تب بھی کپڑا دھویا جاتا ہے، خصوصاً جب کہ کئی دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف کپڑا ملنے اور رگڑنے کو کافی سمجھا ہے۔ ویسے بھی منی انبیاء و صلحاء کا مبدا ہے۔ یہ بدبو سے بھی پاک ہے، اس لیے اس مسلک کے حاملین کے نزدیک اسے دوسری پلید چیزوں کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
➋ سارا کپڑا دھونا ضروری نہیں۔ صرف آلودگی والی جگہ دھو لی جائے۔
➌ جس کپڑے سے منی دھوئی جائے، اس کے خشک ہونے سے پہلے نماز کے لیے مسجد میں جایا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 296   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 25  
´منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کپڑے پر لگی ہوئی) منی کو دھویا کرتے تھے۔ پھر اسی کپڑے کو زیب تن فرما کر نماز پڑھ لیتے تھے اور میں دھونے کے نشان اور اثر کو صاف طور پر (اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 25]
لغوی تشریح:
«أَفْرُكُهُ» اس میں ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ را کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ جائز ہے۔ باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» اور «ضَرَبَ يَضْرِبُ» دونوں سے آتا ہے۔
«اَلْفَرْك» کے معنی ہیں: مَل کر صاف کرنا یہاں تک کہ نشان اور دھبہ وغیرہ زائل ہو جائے۔
«أَحُكُّهُ» میں بھی ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ حا کے ضمہ کے ساتھ «حَك» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی بھی ملنے اور کھرچنے کے ہیں۔
«يَابِسًا» حال واقع ہوا ہے جس کے معنی خشک کے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خواہ وہ خشک ہو یا تر، بلکہ اس کو زائل کرنے کے لئے جبکہ وہ تر ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ، کپڑے، گھاس یا دیگر اشیاء، مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔
➋ ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ «تَعَبُّدًا» منی کو دھو کر، ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے، اسے مَل کر، کھرچ کر یا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے، لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متاثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّة میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔
➌ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی، داود ظاہری، امام احمد رحمها اللہ اور صحابہ میں سے سیدنا علی، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا ابن عمر اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے، ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد، 3/ 119۔ 126 میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما ER ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنیٰ ہیں۔ 57 یا 58 ہجری کے ماہ رمضان کی 17 تاریخ کو فوت ہوئیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی برأت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے حجرے میں مدفون ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 25   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 230  
´منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے`
«. . . عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنِ الْمَنِيِّ، يُصِيبُ الثَّوْبَ؟ فَقَالَتْ " كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِي ثَوْبِهِ بُقَعُ الْمَاءِ " . . . .»
. . . ہم سے عمرو بن میمون نے سلیمان بن یسار کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس منی کے بارہ میں پوچھا جو کپڑے کو لگ جائے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان (یعنی) پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں باقی ہوتے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ:: 230]
تشریح:
باب میں عورت کی شرمگاہ سے تری وغیرہ لگ جانے اور اس کے دھونے کا بھی ذکر تھا۔ مگر احادیث واردہ میں صراحتاً عورت کی تری کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں حدیث نمبر 227 میں کپڑے پر مطلقاً منی لگ جانے کا ذکر ہے۔ خواہ وہ مرد کی ہو یا عورت کی۔ اسی سے باب کی مطابقت ہوتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ منی کو پہلے کھرچنا چاہئیے پھر پانی سے صاف کر ڈالنا چاہئیے پھر بھی اگر کپڑے پر کچھ نشان دھبے باقی رہ جائیں تو ان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ کیونکہ کپڑا پاک صاف ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 230   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 232  
´اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے`
«. . . عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنَّهَا كَانَتْ تَغْسِلُ الْمَنِيَّ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَرَاهُ فِيهِ بُقْعَةً أَوْ بُقَعًا " . . . .»
. . . سلیمان بن یسار سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھیں (وہ فرماتی ہیں کہ) پھر (کبھی) میں ایک دھبہ یا کئی دھبے دیکھتی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا غَسَلَ الْجَنَابَةَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَمْ يَذْهَبْ أَثَرُهُ:: 232]
تشریح:
قسطلانی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر اس کا نشان دور کرنا سہل ہو تو اسے دور ہی کرنا چاہئیے، مشکل ہو تو کوئی ہرج نہیں۔ اگر رنگ کے ساتھ بو بھی باقی رہ جائے تو وہ کپڑا پاک نہ ہو گا۔ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اس بات میں منی کے سوا اور نجاستوں کا صراحتاً ذکر نہیں فرمایا۔ بلکہ ان سب کو منی ہی پر قیاس کیا، اس طرح سب کا دھونا ضروری قرار دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 232   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 231  
´اگر منی یا کوئی اور نجاست (مثلاً حیض کا خون) دھوئے اور (پھر) اس کا اثر نہ جائے`
«. . . حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ فِي الثَّوْبِ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " كُنْتُ أَغْسِلُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَثَرُ الْغَسْلِ فِيهِ بُقَعُ الْمَاءِ " . . . .»
. . . ہم سے عمرو بن میمون نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کپڑے کے متعلق جس میں جنابت (ناپاکی) کا اثر آ گیا ہو، سلیمان بن یسار سے سنا وہ کہتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو دھو ڈالتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے باہر نکلتے اور دھونے کا نشان یعنی پانی کے دھبے کپڑے میں ہوتے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا غَسَلَ الْجَنَابَةَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَمْ يَذْهَبْ أَثَرُهُ:: 231]
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پاک کرنے کے بعد پانی کے دھبے اگر کپڑے پر باقی رہیں تو کچھ حرج نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 231   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 229  
´ منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ: 229]
تخريج الحديث:
[165۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 64 باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب المراة 229، مسلم 289]
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ کھرچنے اور دھونے کے بعد بھی اگر منی کے کچھ نشان کپڑے پر باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں اور اس اس کپڑے میں نماز درست ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ منی پاک ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ منی ناک کی رطوبت اور تھوک کی مانند ہے۔ اور تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ اسے کسی کپڑے یا اذخر گھاس سے صاف کر لو۔ [صحيح موقوف: الضعيفة 948، دار قطني 124/1، بيهقي 418/2]
امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [التعليق على سبل السلام للشيخ بسام 65/1، فتح الباري 332/1، نظم الفرائد 231/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 165   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 373  
´کپڑے میں منی لگ جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوتی تھیں، کہتی ہیں کہ پھر میں اس میں ایک یا کئی دھبے اور نشان دیکھتی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 373]
373۔ اردو حاشیہ:
➊ مرد کا مادہ منویہ اگر گاڑھا ہو تو اس کے جرم کا ازالہ کر دینا لازمی ہے، گیلا ہو تو کسی تنکے وغیرہ سے، خشک ہو تو مسلنے یا اکھیڑنے سے دور کر دیا جائے یا اسے دھویا بھی جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں عمل ثابت ہیں، لیکن اگر رقیق ہو تو دھو لینا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کہیں کوئی ویسا حکم نہیں دیا جیسے کہ عورتوں کو خون حیض کے بارے میں ہدایات دیں۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ منی بلغم کی مانند ہے، اسے دور کرو، خواہ گھاس کے تنکے سے ہو۔
➌ یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف آلودہ حصے کو دھو لینا ہی کافی ہوتا ہے، باقی کپڑا پاک رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 373   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:186  
فائدہ:
اس حدیث سے واضح ہوا کہ منی کو دھونا ضروری نہیں ہے، کھر چنا کفایت کر جاتا ہے، اور راجح موقف بھی یہی ہے کہ منی پاک ہے، ایک دلیل یہی حدیث ہے، جانبین کے دلائل پر راقم نے مفصل بحث شرح صحیح مسلم میں کر دی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 186   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:229  
229. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نبی ﷺ کے کپڑے سے جنابت کے اثرات کو دھو ڈالتی تھی اور آپ انہی کپڑوں میں نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے جبکہ پانی کے دھبے آپ کے کپڑے میں باقی ہوتے (نظر آتے) تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:229]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تین چیزیں بیان کی ہیں:
۔
منی کا دھونا منی کا کھرچ دینا اور عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت کا دھونا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے خون پیشاب اور مذی کے ساتھ لفظ غسل لا کر ان کے ناپاک ہونے پر تنبیہ کی تھی، اسی طرح یہاں بھی منی اور رطوبت فرج کے ساتھ لفظ غسل لا کر ان کے نجس ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ منی کی نجاست سے طہارت حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں، اگر آلودہ کپڑا ترہے تو اسے دھویا جائے۔
اگر منی خشک ہو چکی ہے تو اسے کھرچ دیا جائے۔
بعض روایات میں تر کپڑے سے منی کو تنکے وغیرہ سے دور کر دینے کا ذکر ہے۔
اس کا ذکر ہم آئندہ کریں گے۔

امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تین امور کا ذکر کیا ہے، لیکن حدیث میں صرف غسل منی کا حکم ہے، باقی دو یعنی فرک (کھرچنے)
اور رطوبت فرج (شرم گاہ کی تری)
کا کیا حکم ہے؟ اس کے متعلق کوئی حدیث ذکر نہیں کی۔
اس کے متعلق شارحین بخاری نے مختلف توجیہات ذکر کی ہیں۔
تاہم ہمارے نزدیک عنوان کے ہر سہ اجزاء حدیث الباب سے ثابت ہیں۔
البتہ ہر جز کے لیے اس کی دلالت الگ الگ نوعیت کی ہے، غسل منی تو عبارت نص سے ثابت ہے اور فرک منی اس طرح ثابت ہے کہ بقائے اثر کا غیر مضر ہونا، حدیث الباب سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے اور فرک میں بھی ظاہری اجزاء زائل تو ہو جاتے ہیں اس کا خفیف سا اثر باقی رہتا ہے جو چنداں نقصان دہ نہیں۔
اور رطوبت فرج کا ذکر حدیث کے الفاظ "أغسل الجنابة" میں ہے کہ جنابت سے مراد عام منی ہے، خواہ مرد کی ہو یا عورت کی اس کا دھونا متعین ہے۔
اس سے اس کی نجاست ثابت ہو گئی۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرک منی کے متعلق چند احادیث ذکر کی ہیں:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے خشک منی کو اپنے ناخن سے کھرچ دیتی تھیں۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 674 (290)
حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ایک مہمان ٹھہرا، اسے رات کو احتلام ہو گیا تو اس نے بستر کی چادر دھودی۔
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس نے ہمارے کپڑے کو خواہ مخواہ خراب کردیا ہے، صرف اتنا کافی تھا کہ وہ منی کو کھرچ دیتا۔
میں خود رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اسے کھرچ دیتی تھی۔
(جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 116)
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اذخر کے تنکوں کے ذریعے سے منی کو دور کردیتی تھیں، پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔
(صحیح ابن خزیمة: 149/1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جن کپڑوں سے منی کو کھرچا جاتا تھا وہ نیند کے کپڑے تھے، ان میں نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ موقف صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی کو کھرچ ڈالتی تو آپ اس میں نماز ادا کر لیتے۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 668 (288)
ان احادیث کے پیش نظر یہ موقف غلط ہے کہ مفروک کپڑوں میں نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
(فتح الباري: 434/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 229   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:230  
230. حضرت سلیمان بن یسار سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے سوال کیا: جس کپڑے کو منی لگ جائے تو (کیسے پاک کیا جائے؟) حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی دھو ڈالتی، پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کے نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:230]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کا رجحان نجاست منی کی طرف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ آپ نے ان احادیث پر غسل منی کا عنوان قائم کیا ہے۔
جیسے قبل ازیں غسل بول اور غسل مذی کا عنوان قائم کر چکے ہیں۔
آئندہ ایک عنوان غسل جنابت ہے۔
امام بخاری ؒ جس چیز کے متعلق غسل کا عنوان قائم کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک نجس ہوتی ہے۔
آپ نے اس عنوان میں فرک منی کا بھی ذکر کیا ہے۔
وہ اس لیے ہے کہ منی سے تطہیر فرک (کھرچنے)
سے بھی ہو جاتی ہے۔
شریعت اسلامیہ میں طہارت کی مختلف صورتیں ہیں اور اس کے حصول کے بھی متعدد طریقے ہیں، کیونکہ جن چیزوں سے نجاست متعلق ہو جاتی ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہیں، ان کے متعلق یہ کہنا کہ دھونے کے علاوہ دیگر تمام طریقے طہارت کی علامت لازمہ ہیں درست نہیں۔
طہارت کی مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں:
* استنجا کے لیے ڈھیلوں کا استعمال جائز ہے، پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری نہیں۔
* جوتوں کی نجاست لگی ہو تو انھیں پاک زمین پر رگڑ دیا جائے تو پاک ہو جائیں گے، انھیں دھونے کی ضرورت نہیں۔
* جن چیزوں میں نجاست اندر داخل نہ ہو، جیسے شیشہ وغیرہ ان کی طہارت صرف مسح سے ہو جاتی ہے۔
* زمین نجاست آلود ہو تو خشک ہونے پر خود بخود پاک ہو جائے گی۔
بچے کے پیشاب پر پانی چھڑکنا ہی کافی ہے، اسے بھی دھونے کی ضرورت نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں طہارت حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔
اسی طرح اگر کپڑے کو منی لگ جائے تو اس کی طہارت کے دو طریقے ہیں:
اسے دھودیا جائے یا اسے کھرچ ڈالا جائے۔
اب اگر فرک (رگڑنے)
ہی کو دلیل طہارت بنا لیا جائے تو ایسا ہوگا کہ کسی شخص کا موزہ نجاست آلود ہوجائے اور وہ اسے زمین پر رگڑ کر پاک کرلے تو کہا جائے کہ اگر اس کا زمین پر رگڑنا دلیل طہارت ہے تو اس نجاست کے متعلق کیا حکم ہے جو اسے لگی ہوئی ہے اگر فرک منی طہارت منی کے لیے دلیل ہے تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کم ازکم ایک مرتبہ بیان جواز کے طور پر آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھنے کا ثبوت ضرور ملنا چاہیے۔
ہاں مفروک کپڑے میں نماز پڑھنا ثابت ہے، کیونکہ فرک بھی منی سے طہارت حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کاذکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں کیا ہے۔

منی نجس ہے، اس کی نجاست کے دلائل حسب ذیل ہیں:
۔
* قرآن کریم میں اسے ﴿مَّاءٍ مَّهِينٍ﴾ حقیر پانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(المرسلات77۔
20)

کسی پاکیزہ چیز کے متعلق یہ انداز اختیار نہیں کیا جاتا. * جب حدث اصغر کا سبب پیشاب ناپاک ہے تو حدث اکبر کا سبب منی بطریق اولیٰ ناپاک ہونا چاہیے۔
* صحیح احادیث سے ازالہ منی کا ثبوت غسل، فرک، مسح، حت اور حک کے الفاظ سے ملتا ہے جو اس کی نجاست کے لیے واضح دلیل ہے۔
* حضرت معاویہ ؓ نے حضرت حفصہ ؓ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ ﷺ جماع کے کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اگر ان میں نجاست کا اثر نہ دیکھتے تو ان میں نماز پڑھ لیتے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 366)
اس میں دو طرح سے منی کی نجاست پر دلیل لی گئی ہے:
۔
* اسے اذی سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ حیض کو اذی کہا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ منی ناپاک ہے۔
* رسول اللہ ﷺ کا اس کی موجود گی میں نماز نہ پڑھنا بھی اس کے ناپاک ہونے کی دلیل ہے۔
کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ کپڑے یا جسم پر منی کو بدستورباقی رکھنے کا ثبوت ہوتا۔
حدیث الباب کے الفاظ (كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ)
بھی نجاست منی کی دلیل ہیں۔
اس پر علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے نجاست منی پر استدلال صحیح نہیں کیونکہ غسل منی نجاست کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس کی گزر گاہ نجس ہے یا بوجہ اختلاط رطوبت فرج ہے۔
(شرح الكرمانی: 82/2)
علامہ عینی کہتے ہیں کہ مستقر منی اور مستقر بول دونوں الگ الگ ہیں۔
اسی طرح ان کے مخرج بھی جدا جدا ہیں۔
لہٰذا گزرگاہ کے نجس ہونے کی بات بے دلیل ہے اور نجاست رطوبت فرج کا مسئلہ بھی اختلافی ہے۔
اس کی وجہ سے بھی استدلال مذکورہ کو کمزور نہیں کہہ سکتے۔
(عمدة القاري: 639/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 230   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:231  
231. عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت سلیمان بن یسار سے منی آلود کپڑے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا: حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑے سے منی دھو ڈالتی تھی، پھر آپ نماز کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ دھونے کا نشان، یعنی پانی کے دھبے کپڑے پر باقی رہ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:231]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔
ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔
اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔
شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
۔
* پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 229)
* دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 230)
* پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 232)
ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔
پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔

امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔
البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:
اللہ کے رسول الله ﷺ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔
عرض کیا:
اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا:
پانی سے دھولینا کافی ہے۔
اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 365)
غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔
اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 231   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:232  
232. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ وہ منی کو نبی ﷺ کے کپڑوں سے دھوتی تھیں۔ (حضرت عائشہ نے کہا:) پھر میں اس دھونے کا ایک دھبا یا کئی دھبے آپ کے کپڑوں میں دیکھتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:232]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر ناپاک منی کو اچھی طرح دھو دیا جائے، اس کے باوجود اس کا دھبا زائل نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
اسے کسی خارجی چیز سے دھونے کی ضرورت نہیں۔
ان دھبوں کو زائل کرنا محض تکلف ہے۔
اسی طرح کپڑے کو خشک کرنے کی بھی ضرورت نہیں اگر پانی کے نشانات کپڑے پر نظر آتے ہیں تو چنداں حرج نہیں۔
شارحین کا اختلاف ہے کہ دھبوں سے مراد پانی کے دھبے ہیں یا منی کے؟ دراصل روایت میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
۔
* پانی کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 229)
* دھونے کے دھبے کپڑے میں موجود ہوتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 230)
* پھر میں کپڑے پر دھبے دیکھتی تھی۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 232)
ان آخری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دھونے کے بعد اس کپڑے میں منی کے دھبے نظر آتے تھے۔
پہلے اور دوسرے الفاظ سے پانی کے دھبے معلوم ہوتے ہیں، بہر حال دھونے کے بعد دھبوں کا بقا نقصان دہ نہیں۔

امام بخاری ؒ نے جنابت کے ساتھ غیرھا کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔
البتہ جنابت کا حکم معلوم کر لینے کے بعد دیگر نجاستوں کو اس پرقیاس کیا جا سکتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا:
اللہ کے رسول الله ﷺ! میرے پاس صرف ایک کپڑا ہے حالت حیض میں وہ ملوث ہو جاتا ہے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
جب تم پاک ہو جایا کرو تو اسے دھولیا کرو۔
عرض کیا:
اگر اس سے خون کا دھبا نہ جائے تو؟آپ نے فرمایا:
پانی سے دھولینا کافی ہے۔
اس کے بعد اگر نشان رہ جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 365)
غیرھا کا لفظ بڑھانے سے یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حکم منی سے مخصوص نہیں دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔
اگر یہ معنی لیا جائے تو حدیث الباب میں اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 232