براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا حاکم بنایا، پھر جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: ”تم نے کیسے کیا ہے؟“ یعنی کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے، میں نے کہا: میں نے آپ کا تلبیہ پکارا ہے (یعنی آپ کے احرام کے مطابق احرام باندھا ہے)، آپ نے فرمایا: ”میں تو ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے قِران کیا ہے“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”اگر مجھے پہلے وہ باتیں معلوم ہوئی ہوتیں جواب معلوم ہوئی ہیں تو میں بھی ویسے ہی کرتا جیسے تم نے کیا ہے ۱؎ لیکن میں ہدی ساتھ لایا ہوں، اور میں نے حج قِران کا احرام باندھ رکھا ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2726]
اجعلوا حجتكم عمرة فقال الناس يا رسول الله قد أحرمنا بالحج فكيف نجعلها عمرة انظروا ما آمركم به فافعلوا فردوا عليه القول فغضب فانطلق ما لي لا أغضب وأنا آمر أمرا فلا أتبع
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2726
اردو حاشہ: (1) اس حدیث کی سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہے جو عن سے بیان کر رہا ہے لیکن اس کے صحیح شواہد موجود ہیں۔ جن کا محقق کتاب نے بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک شاہد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث بھی ہے، لہٰذا یہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے اور ابو اسحاق کا عنعنہ یہاں مضر نہیں۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 24/ 159-162) (2)”کیسے احرام باندھا ہے؟“ یعنی صرف حج کا یا صرف عمرے کا یا دونوں کا؟ (3)”آپ کے احرام کی طرح۔“ یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میرا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگا۔ اگرچہ اس وقت انھیں علم نہ تھا۔ کہ رسول اللہﷺ نے احرام کیسے باندھا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا عملاً بھی ان کا احرام رسول اللہﷺ کے احرام کی طرح ہوگیا۔ (4)”میں اسی طرح کرتا۔“ یعنی قربانی ساتھ نہ لاتا (بلکہ موقع پر خریدتا) اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا۔ (5) ثابت ہوا تمتع اور قران شرعاً جائز ہیں، بلکہ تمتع افضل ہے اور آسانی کا باعث بھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2726
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2746
´دوسرے کی نیت پر نیت کر کے محرم حج کا تلبیہ پکارے۔` براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا گورنر (امیر) بنایا تو مجھے ان کے ساتھ کئی اوقیے ملے جب علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، میں نے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ انہوں نے گھر میں خوشبو پھیلا رکھی ہے، تو میں گھر سے نکل کر باہر آ گیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2746]
اردو حاشہ: (1) یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ تفصیل حدیث نمبر 2726 کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ (2)”اوقیے ملے تھے۔“ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے وقتی طور پر زکاۃ وغیرہ اکٹھی کرنے پر مقرر کیے گئے ہوں گے تو اس کام کے عوض انھیں کچھ اوقیے ملے۔ (3)”خوشبو لگا رکھی تھی“ کیونکہ وہ عمرہ کر کے حلال ہو چکی تھیں اور انھیں توقع تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی حلال ہو جائیں گے لیکن چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ یوم نحر سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2746
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2982
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے حج کو عمرہ کر دو“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو“، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2982]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے تاہم اگر کسی دوسری سند سے یہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اشکال پیدا ہوگا۔ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے براہ راست حکم سن کر بھی تعمیل کیوں نہ کی؟اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو احرام کی حالت میں دیکھا تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرح احرام میں رہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اتباع ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوبارہ وہی بات اس لیے عرض کی کہ شاید رسول اللہ ﷺ انھیں احرام نہ کھولنے کی اجازت دے دیں ورنہ ان سے حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2982