ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی دوبارہ جماع کرنا چاہے تو وضو کرے“۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 263]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 263
263۔ اردو حاشیہ: ➊ اس وضو کی حکمت بعض روایات میں یہ بتائی گئی ہے: «فإنه أنشط للعود» یعنی دوبارہ جماع کے لیے یہ وضو زیادہ چاق و چوبند بنا دیتا ہے۔ دیکھیے: [المستدرك للحاكم: 152/1] ایک روایت میں «وضوءہ للصلاة» کے الفاظ ہیں، یعنی نماز والا وضو کرے۔ [صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 288، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 305] یہ وضو بھی مستحب ہے۔ ➋ اگر آدمی دوسری مرتبہ اپنی بیوی سے جماع کرنا چاہے تو دونوں باریوں کے درمیان غسل کرنا واجب نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 263
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 103
´دوبارہ ہم بستری کے لیے وضو` «. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا اتى احدكم اهله ثم اراد ان يعود فليتوضا بينهما وضوءا . . .» ”. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے (یعنی تعلق زن و شو قائم کرے، ہمبستری کرے) پھر دوبارہ لطف اندوز ہونے کا ارادہ ہو تو درمیان میں وضو کر لے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 103]
لغوی تشریح: «أَنْشَطْ» اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ بہت مسرت، فرحت اور تازگی بخش ہے۔ طبیعت میں تروتازگی اور عمدگی پیدا کرتا ہے۔ «مِنْ غَيْرِ أَنْ يَّمَسَّ مَاءً» اس جملے میں جس نفی کا ذکر ہے وہ غسل اور وضو دونوں کو شامل ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نہ وضو فرماتے اور نہ غسل کرتے۔ اس حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ والی روایت میں وضو کرنے کا جو حکم ہے واجب نہیں یا جو پہلو زیادہ مفید ہے اس کی جانب اشارہ کرنا مطلوب ہے۔ «وَهُوَ مَعْلُولٌ» اس حدیث کے معلول ہونے کی وجہ محدثین کی نظر میں ابواسحاق کا ابوالاسود کے واسطے سے روایت کرنا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ابواسحاق کا ابوالاسود سے سماع ثابت نہیں، لیکن امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور انہوں نے اس کا سماع ثابت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ الله نے بھی معلول اس لئے کہا ہے کہ ان کے نزدیک بھی ابواسحاق کا ابواسود سے سماع ثابت نہیں۔ مگر امام بیہقی رحمہ الله کو یہ ثابت کرنے سے کہ ان کا سماع یقینی ہے جس کے باعث حدیث معلول نہیں رہتی۔
فوائد و مسائل: ➊ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خور و نوش اور مباشرت کے لیے عضو مخصوص دھو کر وضو فرما لیتے تھے۔ [صحيح مسلم، الحيض، باب جواز نوم الجنب واستحباب الوضوء۔۔۔، حديث: 305، 306، 307] ➋ اکثر علمائے امت کے نزدیک یہ وضو واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 103
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 220
´دوبارہ رغبت ہو تو اس دوران میں وضو کر لینا جمہور کے نزدیک مستحب ہے` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يُعَاوِدَ، فَلْيَتَوَضَّأْ بَيْنَهُمَا وُضُوءًا . . .» ”. . . نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے (یعنی صحبت کرے) پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے، تو ان دونوں کے درمیان وضو کرے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 220]
فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ بالا احادیث [218، 219] میں کسی قسم کا تعارض نہیں ہے بلکہ یہ دو مختلف احوال کا بیان ہے۔ ➋ دوبارہ رغبت ہو تو اس دوران میں وضو کر لینا جمہور کے نزدیک مستحب ہے۔ امام ابن خزیمہ اس وضو سے باقاعدہ نماز والا وضو مراد لیتے ہیں، نہ کہ محض استنجا یا تنظیف (صفائی) جیسے کہ امام طحاوی رحمہ اللہ کا خیال ہے اور اس کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ ”اس سے طبیعت میں خوب نشاط پیدہ ہو جاتی ہے۔“ اور یہی جملہ اس امر کے لئے ”امر استحباب“ ہونے کا قرینہ ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 220
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث587
´جنبی اگر دوبارہ ہمبستری کرنا چاہے تو وضو کرے۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ ہمبستری کرنا چاہے، تو وضو کر لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 587]
اردو حاشہ: یہ وضو واجب نہیں، مستحب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ دوبارہ مقاربت کے لیے (توانائی) پیدا ہوجاتی ہے۔ دیکھیے: (صحيح ابن خزيمه، الوضوء، جماع ابواب فضول التطهير والاستحباب من غير ايجاب، باب ذكر الدليل علي ان الامر بالوضوء عند ارادة الجماع امر ندب وارشاد، حديث: 221)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 587
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 141
´بیوی سے دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ کرنے پر جنبی وضو کر لے۔` ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے پھر وہ دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کر لے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 141]
اردو حاشہ: 1؎: بعض اہل علم نے اسے وضو لغوی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد شرم گاہ دھونا ہے، لیکن ابن خزیمہ کی روایت سے جس میں ((فَلْيَتَوَضَّأ وُضُوئَه لِلصَّلَاةِ)) آیا ہے اس کی نفی ہوتی ہے، صحیح یہی ہے کہ اس سے وضو لغوی نہیں بلکہ وضو شرعی مراد ہے، جمہور نے ((فَلْيَتَوَضَّأ)) میں امر کے صیغے کے استحباب کے لیے مانا ہے، لیکن ظاہریہ کے نزدیک وجوب کا صیغہ ہے، جمہور کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں ہے ((كَانَ لِلنَّبِيِّ ﷺ يُجَامِعُ ثُمَّ يَعُوْدُ وَلَايَتَوَضَّأُ)) نیز صحیح ابن خزیمہ میں اس حدیث میں ((فَإِنَّه أَنْشَطَ لِلْعُود)) کا ٹکڑا وارد ہے اس سے بھی اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ امر کا صیغہ یہاں استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 141
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:770
770- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرے، پھر اگر وہ دوبارہ ایسا کرناچاہے، تو اسے نماز کے وضو کی طرح وضو کر لینا چاہیے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:770]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بیوی سے ایک ہی رات میں دوبارہ صحبت کرنا درست ہے، اگر دوبارہ صحبت کرنی ہے تو درمیان میں وضو کر لیا جائے تا کہ مرد چست ہو جائے لیکن اگر وہ غسل کر لے تو بہت ہی بہتر ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 770