عبداللہ بن السعدی القرشی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ شام سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام پر عامل بنائے جاتے ہو، اور اس پر جو تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو اسے تم قبول نہیں کرتے، تو انہوں نے کہا: ہاں یہ صحیح ہے، میرے پاس گھوڑے ہیں، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں (اللہ کا شکر ہے کوئی کمی نہیں ہے) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تم چاہتے ہو وہی میں نے بھی چاہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال دیتے تو میں عرض کرتا: اسے آپ اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، ایک بار آپ نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کیا: آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، تو آپ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل اس مال میں سے جو تمہیں بغیر مانگے اور بغیر لالچ کئے دے، اسے لے لو، چاہو تم (اسے اپنے مال میں شامل کر کے) مالدار بن جاؤ، اور چاہو تو اسے صدقہ کر دو۔ اور جو نہ دے اسے لینے کے پیچھے مت پڑو“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2606]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2606
اردو حاشہ: (1)”اللہ تعالیٰ دے۔“ انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، خواہ ظاہراً کسی آدمی کے ہاتھوں ملے کیونکہ ہر چیز کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔ دینے والے کے دل میں دینے کا خیال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جن صلاحیتوں کی وجہ سے مال ملتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہیں۔ حساب بھی اللہ تعالیٰ ہی لے گا۔ (2) ان احادیث میں تنخواہ اور معاوضے کا ذکر ہے۔ تحفے اور صدقے میں بھی یہی اصول ہے کہ اگر بغیر مانگے حاصل ہو تو انکار نہیں کرنا چاہیے، البتہ صدقے کی صورت میں مستحق زکاۃ ہونا ضروری ہے۔ (3) تحفے کا بدلہ دینا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2606