عبداللہ بن ساعدی مالکی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے صدقہ پر عامل بنایا، جب میں اس سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کر دیا، تو انہوں نے اس کام کی مجھے اجرت دینے کا حکم دیا، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ عزوجل کے لیے کیا ہے، اور میرا اجر اللہ ہی کے ذمہ ہے، تو انہوں نے کہا: ـ میں تمہیں جو دیتا ہوں وہ لے لو، کیونکہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک کام کیا تھا، اور میں نے بھی آپ سے ویسے ہی کہا تھا جو تم نے کہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو (اسے) کھاؤ، اور (اس میں سے) صدقہ کرو“۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2605]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2605
اردو حاشہ: ہر سرکاری کارندہ اس پوزیشن میں نہیں ہوتا کہ وہ سرکاری کام بلا معاوضہ کر سکے کیونکہ معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ہر سرکاری کارندے کو معاوضہ دے اور سرکاری کارندہ اسے وصول کرے کیونکہ اگر بعض وصول کریں، بعض نہ کریں تو وصول کرنے والے شرمندگی ہی محسوس کریں گے۔ ہو سکتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائیں۔ وصول نہ کرنے کی صورت میں اظہار ہوگا جس سے ذہن میں تکبر و فخر پیدا ہو سکتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2605