جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کر دیا ۱؎، یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس شخص سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس اس غلام کے علاوہ بھی کوئی مال ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مجھ سے کون خرید رہا ہے؟“ تو نعیم بن عبداللہ عدوی نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان درہموں کو لے کر آئے اور انہیں اس کے حوالہ کر دیا، اور فرمایا: ”پہلے خود سے شروع کرو اسے اپنے اوپر صدقہ کرو اگر کچھ بچ رہے تو تمہاری بیوی کے لیے ہے، اور اگر تمہاری بیوی سے بھی بچ رہے تو تمہارے قرابت داروں کے لیے ہے، اور اگر تمہارے قرابت داروں سے بھی بچ رہے تو اس طرح اور اس طرح کرو، اور آپ اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کر رہے تھے“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2547]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2547
اردو حاشہ: (1) کوئی شخص اپنی زندگی کی حالت میں کہے کہ یہ غلام میرے مرنے کے بعد آزاد ہوگا۔ اسے عربی زبان میں تدبیر کہتے تھے اور اس کا عام رواج تھا۔ شریعت نے بھی اسے تسلیم کیا ہے۔ اس صورت میں اس کی موت کے بعد واقعتا وہ غلام آزاد ہوگا، لیکن اس کی حیثیت وصیت جیسی ہے جس کا نفاذ صرف ایک تہائی ملکیت میں ہو سکتا ہے۔ (2) مذکورہ شخص کے پاس صرف وہ غلام ہی کل مال تھا۔ ظاہر ہے وصیت ایک تہائی مال سے زائد نہیں ہو سکتی، لہٰذا نبیﷺ نے اس کے عمل تدبیر کو اپنے حکم سے توڑ دیا بلکہ اس غلام کو فروخت کر دیا تاکہ اس شخص کی موت کی صورت میں وہ آزاد نہ ہو سکے۔ (3) ایسے غلام کو بیچنا جائز نہیں ہوتا مگر مخصوص حالات میں (جب تدبیر غلط ہو) اسے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بیچنے یا وہ شخص خود، مگر اس سے یہ استدلال درست نہیں کہ ہر مدبر کو بیچنا درست ہے۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔ (4)”آگے اور دائیں بائیں۔“ یعنی جہاں مناسب سمجھے صدقہ کر۔ یہ ایک محاورہ ہے ظاہر الفاظ مراد نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2547