حسن (حسن بصریٰ) سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خطبہ دیا، تو انہوں نے کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ دو (یعنی صدقہ فطر نکالو) تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ تو انہوں نے کہا: یہاں اہل مدینہ میں سے کون کون ہیں؟ تم لوگ اٹھو، اور اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، انہیں بتاؤ، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام، مذکر اور مونث پر آدھا صاع گی ہوں، یا ایک صاع کھجور، یا جو فرض کیا ہے۔ حسن کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رہی بات جب اللہ نے تمہیں وسعت و فراخی دے رکھی ہو تو تم بھی وسعت و فراخی کا مظاہرہ کرو۔ گیہوں وغیرہ (نصف صاع کے بجائے) ایک صاع دو۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2517]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 1581 (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد صحيح المرفوع منه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، تقدم (1581) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340
أخرجوا زكاة صومكم فنظر الناس بعضهم إلى بعض فقال من هاهنا من أهل المدينة قوموا فعلموا إخوانكم فإنهم لا يعلمون أن هذه الزكاة فرضها رسول الله على كل ذكر وأنثى حر ومملوك صاعا من شعير أو تمر أو نصف صاع من قمح فقاموا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1581
´عیدین کے خطبے میں امام لوگوں کو صدقہ کرنے پر ابھارے۔` حسن بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بصرہ میں خطبہ دیا تو کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ ادا کرو، تو (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، تو انہوں نے کہا: یہاں مدینہ والے کون کون ہیں، تم اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، اور انہیں سکھاؤ کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جو، چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد، عورت سب پر فرض کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1581]
1581۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے، تاہم روایت میں بیان کردہ مسئلہ صدقۃ الفطر دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ غالباً اسی وجہ سے محققین نے روایت کے پہلے حصے «ان ابن عباس خطب بالبصرۃ۔۔۔۔ فانھم لایعلمون» کو ضعیف قرار دیا ہے اور دوسرے حصے «ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض۔۔۔ من تعر او شعیر» کو دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن ابی داود (مفصل) للالبانی: 2؍121۔ 123، رقم: 288، ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: 22؍280۔ 286) بنابریں یہی موقف دلائل کی رو سے صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام اور مذکرو مؤنث پر نصف صاع گندم یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو صدقۃ الفطر معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک صاع کی بجائے آدھا صاع گندم بھی فطرانے میں دے دیتا ہے تو ان شاءاللہ یہ بھی جائز ہو گا۔ اسے صرف کسی صحابی کی رائے اور اجتہاد قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ یہ مرفوعاً بھی ثابت ہے، البتہ پورا صاع دینا افضل اور اولیٰ ہے جیسا کہ عمومی احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے سنن نسائی کی کتاب الزکاۃ، باب مکیلۃ زکاۃ الفطر دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1581
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2510
´صدقہ فطر ناپنے کے پیمانہ کا بیان۔` حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے): تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا: مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گی ہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2510]
اردو حاشہ: (1) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف کی بابت تحقیق حدیث: 1581 کے فوائد میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست اور صحیح ہے۔ (2) بصرے میں سب لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے جبکہ مدینے کے لوگ عالم تھے کیونکہ مدینہ منورہ علم کا مرکز تھا۔ (3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرے کے حاکم رہے۔ (4) اس روایت سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم سے نصف صاع مقرر فرمایا تھا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات سے تصدیق ہوتی ہے کہ نصف صاع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کا اجتہاد نہ تھا، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی میں گندم کا وجود نہ تھا، نصف صاع گندم کی روایات مجموعی اعتبار سے واقعی قابل استناد ہیں۔ دیکھیے: (الصحیحة: 3/ 171) لہٰذا نصف صاع گندم کی ادائیگی بھی درست ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، خصوصاً ہمارے خطے پاک وہند میں، ایک صاع گندم دینا ہی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرامؓ کا عمل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور اس کے بعد بھی۔ (واللہ أعلم)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2510
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1622
´گیہوں میں آدھا صاع صدقہ فطر دینے کے قائلین کی دلیل کا بیان۔` حسن کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے اخیر میں بصرہ کے منبر پر خطبہ دیا اور کہا: ”اپنے روزے کا صدقہ نکالو“، لوگ نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے کہا: ”اہل مدینہ میں سے کون کون لوگ یہاں موجود ہیں؟ اٹھو اور اپنے بھائیوں کو سمجھاؤ، اس لیے کہ وہ نہیں جانتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ فرض کیا کھجور یا جَو سے ایک صاع، اور گیہوں سے آدھا صاع ہر آزاد اور غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر“، پھر جب علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے ارزانی دیکھی اور کہنے لگے: ”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کشادگی کر دی ہے، اب اسے ہر شے میں سے ایک صاع کر لو ۱؎ تو بہتر ہے۔“ حمید کہتے ہیں: حسن کا خیال تھا کہ صدقہ فطر اس شخص پر ہے جس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1622]
1622. اردو حاشیہ: مذکور مختلف آثار گندم کی تخصیص کو ثابت کرتے ہیں۔مگر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت میں صراحت ہے کہ یہ سب نبی ﷺ کے بعد ہی ہوا ہے۔(نیل الاوطار 206/4)اور علمائے اہل حدیث کی ترجیح یہی ہے۔کہ گندم کا بھی ایک ہی صاع دینا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1622