الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
6. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي أَنْ يُقَالَ لِشَهْرِ رَمَضَانَ رَمَضَانُ
6. باب: ماہ رمضان کو صرف رمضان کہنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2111
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْمُهَلَّبُ بْنُ أَبِي حَبِيبَةَ. ح وَأَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ صُمْتُ رَمَضَانَ، وَلَا قُمْتُهُ كُلَّهُ"، وَلَا أَدْرِي كَرِهَ التَّزْكِيَةَ، أَوْ قَالَ: لَا بُدَّ مِنْ غَفْلَةٍ وَرَقْدَةٍ اللَّفْظُ لِعُبَيْدِ اللَّهِ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی ہرگز یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے، اور اس کی پوری راتوں میں قیام کیا (راوی کہتے ہیں) میں نہیں جانتا کہ آپ نے آپ اپنی تعریف کرنے کو ناپسند کیا، یا آپ نے سمجھا ضرور کوئی نہ کوئی غفلت اور لاپرواہی ہوئی ہو گی (پھر یہ کہنا کہ میں نے پورے رمضان میں عبادت کی کہاں صحیح ہوا) یہ الفاظ عبیداللہ کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2111]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصوم 47 (2415)، (تحفة الأشراف: 11664)، مسند احمد 5/39، 30، 41، 48، 52 (ضعیف) (اس کے راوی ’’حسن بصری‘‘ مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2415) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 337

   سنن النسائى الصغرىلا يقولن أحدكم صمت رمضان ولا قمته كله
   سنن أبي داودلا يقولن أحدكم إني صمت رمضان كله وقمته كله

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2111 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2111  
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت ضعیف ہے۔ ایک دوسری ضعیف روایت میں آتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: رمضان مت کہو کیونکہ رمضان اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، ہاں: رمضان کا مہینہ کہہ سکتے ہو۔ دیکھیے (ذخیرة العقبیٰ: 20/ 269، 270)
(2) معلوم ہوا اس قسم کے الفاظ بولنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حدیث: 2100، 2101، 2102 اور مابعد کی صحیح حدیث ہے کہ نیکی کی نسبت اپنی طرف کرنا مناسب نہیں بلکہ نسبت اللہ تعالیٰ کی توفیق کی طرف کرے، نیز بلا وجہ نیکی کا اعلان نہیں کرنا چاہیے۔ قبولیت کے بغیر نیکی کی کوئی حیثیت نہیں اور قبولیت کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں، لہٰذا تزکیہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2111   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2415  
´یہ کہنا کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے کیسا ہے؟`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے پورے رمضان کے روزے رکھے، اور پورے رمضان کا قیام کیا۔‏‏‏‏ راوی حدیث کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ممانعت خود اپنے آپ کو پاکباز و عبادت گزار ظاہر کرنے کی ممانعت کی بنا پر تھی، یا اس وجہ سے تھی کہ وہ لازمی طور پر کچھ نہ کچھ سویا ضرور ہو گا (اس طرح یہ غلط بیانی ہو جائے گی)۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2415]
فوائد ومسائل:
قرآن مجید میں ہے: (فَلَا تُزَكُّوٓا۟ أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰٓ) (النجم:32) اپنی نیکیاں اور خوبیاں مت بیان کرو، وہ (اللہ تعالیٰ) تقویٰ والوں کو خوب جانتا ہے۔
یہ حدیث ضعیف ہے۔
اس لیے اگر مقصود اپنی بڑائی کا اظہار اور اپنی پاکیزگی کا اعلان نہ ہو تو حکایت کے طور پر اس کا بیان جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2415