بریدہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قبرستان آتے تو فرماتے: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون أنتم لنا فرط ونحن لكم تبع أسأل اللہ العافية لنا ولكم»”اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلامتی ہو، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم (عنقریب) تم سے ملنے والے ہیں، تم ہمارے پیش رو ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔ میں اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کی درخواست کرتا ہوں“۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2042]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الجنائز 35 (975)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 36 (1547)، (تحفة الأشراف: 1930)، مسند احمد 5/353، 359) 360، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة 318 (1091) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2042
اردو حاشہ: فوت شدگان سے خطاب صرف اپنے ذہن میں ان کی یاد تازہ ہونے کے لحاظ سے ہے ورنہ انھیں سنانا مقصود ہے نہ جواب لینا کیونکہ یہ دونوں چیزیں ناممکن ہیں۔ خصوصاً اس حدیث میں تو صرف ان کے لیے دعا کی جا رہی ہے، جس میں خطاب مقصود ہی نہیں۔ انسانی زندگی میں اس کی مثالیں عام مل جاتی ہیں۔ بسا اوقات انسان خود کلامی کے انداز میں خطاب کرتا ہے، حالانکہ وہاں کوئی بھی مخاطب موجود نہیں ہوتا، صرف اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2042
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 480
´قبرستان جانا، فوت شدگان اور اپنے لیے مغفرت و بخشش کی دعا کرنا` ”سیدنا سلیمان بن بریدہ رحمہ اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین جب قبرستان جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو سکھلاتے کہ یوں کہو ”اہل دیار مومنوں اور مسلمانوں پر سلام ہو! یقیناً، انشاء اللہ ہم بھی آپ کے ساتھ ملنے والے ہیں اور ہم اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ سے عافیت مانگتے ہیں۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 480]
لغوی تشریح: «اَهَلَ الدِّيَارِ» ان سے مراد قبروں میں پڑے ہوئے لوگ ہیں۔ «ديار»، «دار» کی جمع ہے۔ قبر کو گھر سے تشبیہ دی گئی ہے، اس لیے کہ قبر میت کے لیے گھر کی مانند ہے کہ وہ اس میں رہائش پذیر ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث سے قبرستان میں جانا اور پھر فوت شدگان کے لیے اور اپنے لیے مغفرت و بخشش کی دعا کرنا ثابت ہوتا ہے۔ ➋ «مِنَ الْمُؤمِنِينَ وَلْمُسٰلِمِين» سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک، کافر اور ملحد کے لیے دعا کرنا اور ان کے لیے بخشش مانگنا جائز نہیں۔ ➌ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ اہل قبور کو فریاد رس، مشکل کشا سمجھ کر ان سے فریادیں کرتے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں، یہ سب کام خلاف شرع اور شرکیہ افعال ہیں۔ مسلمانوں کو ان سے ہر ممکن طریقے سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
راوی حدیث: حضرت سلیمان بن بریدہ بن حصیب اسلمی مروزی رحمہ اللہ، مشہور تابعی ہیں۔ امام ابن معین اور ابوحاتم رحمہ اللہ نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ کی رائے کہ ان کا اپنے والد سے سماع کہیں مذکور نہیں، مگر خرزجی نے کہا کہ ان کی اپنے والد سے متعدد احادیث صحیح مسلم میں منقول ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 480
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1547
´قبرستان میں پہنچ کر کیا دعا پڑھے؟` بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہیں: «السلام عليكم أهل الديار من المؤمنين والمسلمين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون نسأل الله لنا ولكم العافية»”اے مومن اور مسلمان گھر والو! تم پر سلام ہو، ہم تم سے ان شاءاللہ ملنے والے ہیں، اور ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1547]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر ہم اپنے کسی عزیز یا بزرگ کی قبر کی زیارت کےلئے جایئں یا مسلمانوں کے قبرستان میں جائیں تو ہمیں چاہیے کہ ان مسنون الفاظ کے ساتھ ان کے حق میں دعائے خیر کریں (2) فاتحہ پڑھ کرثواب پہنچانا سنت سے ثابت نہیں۔ لہٰذا ایسے اعمال سے اجتناب بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1547