الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
102. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ الاِسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ
102. باب: کفار و مشرکین کے لیے مغفرت طلب کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 2038
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْتَغْفِرُ لِأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقُلْتُ: أَتَسْتَغْفِرُ لَهُمَا وَهُمَا مُشْرِكَانِ، فَقَالَ: أَوَ لَمْ يَسْتَغْفِرْ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَنَزَلَتْ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لأَبِيهِ إِلا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ سورة التوبة آية 114.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں میں نے ایک شخص کو اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو میں نے کہا: کیا تو ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے؟ حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو اس نے کہا: کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا، تو (یہ آیت) اتری: «وما كان استغفار إبراهيم لأبيه إلا عن موعدة وعدها إياه» ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب کرنا ایک وعدہ کی وجہ سے تھا (التوبہ: ۱۱۴)۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2038]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر التوبة (3101)، (تحفة الأشراف: 10181)، مسند احمد 1/99، 103 (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (3101) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 336

   سنن النسائى الصغرىأتستغفر لهما وهما مشركان فقال أولم يستغفر إبراهيم لأبيه فأتيت النبي فذكرت ذلك له فنزلت وما كان استغفار إبراهيم لأبيه إلا عن موعدة وعدها إياه
   جامع الترمذيأتستغفر لأبويك وهما مشركان فقال أوليس استغفر إبراهيم لأبيه وهو مشرك فذكرت ذلك للنبي فنزلت ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2038 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2038  
اردو حاشہ:
(1) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس حدیث کے بعض حصے کے شواہد مستدرک حاکم وغیرہ میں ہیں جنھیں امام حاکم نے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے موافقت کی ہے لیکن محقق کتاب نے ان شواہد پر خود کوئی حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو غالباً انھی شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح سنن النسائي للألباني: 68/2، رقم: 2035، وذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 54،43/20)
(2) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب پتا چل گیا کہ میرا والد کفر ہی پر فوت ہوا ہے تو انھوں نے اس کے لیے استغفار ترک فرما دیا۔ زندگی میں تو مشرک کے لیے مغفرت اور ہدایت کی دعا کی جا سکتی ہے، مگر شرک پر مرجانے کے بعد نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2038