یزید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے (اتنے میں) ایک جنازہ نظر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، اور جو ان کے ساتھ تھے وہ بھی کھڑے ہو گئے، تو وہ لوگ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ نکل گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1921]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1921
1921۔ اردو حاشیہ: مندرجہ بالا قولی اور فعلی، مرفوع اور موقوف روایات سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ جنازہ آتا دیکھ کر کھڑے ہو جانا چاہیے۔ فطرت اور عقل بھی اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ مگر حضرت علی اور ابن عباس رضی اللہ عنھم قیام کے قائل نہیں یا کہیے کہ اس ضروری نہیں مجھتے جیسا کہ آگے ایک باب میں احادیث آرہی ہیں، مگر وہ ان کا استنباط معلوم ہوتا ہے، اس لیے وہ قیام کی روایات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ زیادہ سے زیادہ ان روایات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹھنا ثابت ہوتا ہے، نیز تطبیق بھی ممکن ہے کہ کھڑے ہونے کا حکم استحباب پر دلالت کرتا ہے مگر بیٹھنا بھی جائز ہے اور یہ اچھی تطبیق ہے۔ (مزید بحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 1915)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1921