انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مر جائیں، تو اللہ تعالیٰ اسے ان پر اپنی رحمت کے فضل سے جنت میں داخل کرے گا“۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1874]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1874
1874۔ اردو حاشیہ: ➊ ”نابالغ“ عربی الفاظہ ہیں «لم یبلغوا الحنث» حنث گناہ کو کہتے ہیں، یعنی وہ گناہ کی عمر، یعنی بلوغت کو نہ پہنچے ہوں کیونکہ بلوغت سے پہلے بچے کے گناہ لکھے نہیں جاتے۔ ➋ یہ ثواب نابالغ کے ساتھ خاص ہے۔ کیونکہ وہ بے گناہ ہوتا ہے، اس سے محبت بھی شددی ہوتی ہے اور اس کی وفات کا صدمہ بھی زیادہ ہوتا ہے جبکہ بالغ گناہ گار ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰ کی رحمت اور ماں باپ کی محبت میں بھی فرق پڑ جاتا ہے کیونکہ ممکن ہے اس سے ماں باپ کے حقوق میں کمی ہو جاتی ہو۔ بعض حضرات نے بالغ کو درجۂ اولیٰ اس ثواب میں داخل کیا ہے کہ جب نابالغ کی وفات پر صبر کا ثواب یہ ہے جس سے والدین کو کوئی مفاد حاصل نہیں ہوتا بلکہ والدین کو خود اس پر خرچ کرناپ ڑتا ہے اور اس کی خدمت بھی کرنی پڑتی ہے تو بالغ کی وفات پر بدرجہ اولیٰ یہ ثواب ملے گا کیونکہ بالغ تو والدین کا سہارا ہوتا ہے، اس کی وفات کا صدمہ زیادہ ہو گا مگر یہ توجیہ حدیث کے ظاہر اور عرف انسانی کے خلاف ہے، پہلی بات ہی صریح تر ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1874
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1873
´تین صلبی اولاد مر جانے پر اللہ تعالیٰ سے اجر چاہنے والے کے ثواب کا بیان۔` انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی تین صلبی اولاد مر جائیں (اور) وہ اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر و ثواب چاہے، تو وہ جنت میں داخل ہو گا“(اتنے میں) ایک عورت کھڑی ہوئی اور بولی: اور دو اولاد مرنے پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو اولاد کے مرنے پر بھی“، اس عورت نے کہا: کاش! میں ایک ہی کہتی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1873]
1873۔ اردو حاشیہ: ➊ ثواب تو دراصل صبر کا ہے، ایک بچے کی وفات پر ہو یا دو یا تین بچوں کی وفات پر۔ اگرچہ ثواب میں کمی بیشی تو ہو گی، بہرحال جنت میں جانے کے لیے ایک بچے کی وفات پر صبر کرنا اور ثواب طلب کرنا کافی ہے جیسا کہ روایت نمبر 1872 میں گزرا۔ ➋ صحابیات رضی اللہ عنھن بھی دین کے مسائل جاننے پر بہت حریص تھیں۔ وہ بڑے ذوق شوق سے مسائل کے بارے میں آگہی حاصل کرتیں۔ مسائل دریافت کرنے میں انہیں کوئی حجاب اور ہچکچاہٹ نہیں تھی۔ ➌ اہل اسلام کے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے فوت ہونے والے بچے جنت میں جائیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1873
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1605
´جس کا بچہ مر جائے اس کے ثواب کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان مرد و عورت کے تین بچے (بلوغت سے پہلے) مر جائیں، تو اللہ تعالیٰ ایسے والدین اور بچوں کو اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1605]
اردو حاشہ: فۃائد و مسائل:
(1) گناہ کی عمر سے مراد بالغ ہونا ہے۔ کیونکہ بالغ ہونے سے پہلے بچے کے گناہ لکھے نہیں جاتے۔ جب بالغ ہوجاتا ہے۔ پھر اس کے گناہ لکھے جاتے ہیں۔
(2) بچوں کی وفات پر صبر کا ثواب جنت میں داخلہ ہے۔
(3) یہ ثواب ماں ارو باپ دونوں کے لئے ہے۔
(4) مسلمانوں کے فوت ہونے والے بچے جنتی ہیں۔
(5) جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ہر دروازے سے خاص خاص لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ بعض افراد کو ایک سے زیادہ دروازوں سے داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ بعض حضرات ایسے بھی ہوں گے۔ جنھیں آٹھوں دروازوں سے داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ وہ جس دروازے سے چاہیں گے جنت میں چلے جایئں گے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1605
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1381
1381. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایاـ”لوگوں میں سے جس کسی مسلمان کے تین بچے مرجائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور ایسا محض اس کی خاص رحمت کی بناء پر ہوگا جو وہ ان پر کرے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1381]
حدیث حاشیہ: باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ ؓ لانے سے امام بخاری ؓ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد ؒ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم﴾(الطور: 21) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔ وَقَالَ النَّوَوِيُّ أَجْمَعَ مَنْ يُعْتَدَّ بِهِ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ مِنْ أَطْفَالِ الْمُسْلِمِينَ فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَتَوَقَّفَ فِيهِ بَعْضُهُمْ لِحَدِيثِ عَائِشَةَ يَعْنِي الَّذِي أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ بِلَفْظِ تُوُفِّيَ صَبِيٌّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقُلْتُ طُوبَى لَهُ لَمْ يَعْمَلْ سُوءًا وَلَمْ يُدْرِكْهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ يَا عَائِشَةَ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ لِلْجَنَّةِ أَهْلًا الْحَدِيثَ قَالَ وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَعَلَّهُ نَهَاهَا عَنِ الْمُسَارَعَةِ إِلَى الْقَطْعِ مِنْ غَيْرِ دَلِيلٍ أَوْ قَالَ ذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ أَنَّ أَطْفَالَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْجَنَّةِ۔ (فتح الباري) یعنی امام نووی نے کہا کہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ ﷺ نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1381
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1381
1381. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایاـ”لوگوں میں سے جس کسی مسلمان کے تین بچے مرجائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا اور ایسا محض اس کی خاص رحمت کی بناء پر ہوگا جو وہ ان پر کرے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1381]
حدیث حاشیہ: (1) صحیح مسلم میں ہے کہ انصار کا ایک بچہ فوت ہوا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے تو جنت کی بشارت ہے، کیونکہ اس نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ کا بھی امکان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے اس کی اہلیت رکھنے والوں ہی کو پیدا کیا ہے۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6768(2662) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد کے متعلق توقف اختیار کیا جائے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مسلمانوں کی اولاد کا اپنے والدین کو جنت میں داخل کرنے کا ذکر ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی اولاد جنت میں ہو گی اور مشرکین اپنی اولاد سمیت جہنم میں ہوں گے، پھر یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ﴾(الطّور21: 52) ”اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔ “(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: 439/7، رقم: 11940، طبع دارالفکر)(2) حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے یا مسلمانوں کی اولاد کے متعلق آپ کو اس کے بعد مطلع کیا گیا کہ ان کا ٹھکانا جنت ہو گا۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جو کسی کے جنت میں جانے کا سبب ہو گا وہ خود بھی جنت میں جائے گا۔ (فتح الباري: 310/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1381