انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز مصیبت کی وجہ سے جو اسے دنیا میں پہنچتی ہے موت کی تمنا نہ کرے ۱؎، بلکہ یہ کہے: «اللہم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي»”اے اللہ! اس وقت تک مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور اس وقت موت دیدے جب موت میرے لیے بہتر ہو“۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1821]
وضاحت: ۱؎: کیونکہ زندگی کا جو حصہ باقی ہے اس کے دین و دنیا کے لیے بہتر ہو، اس لیے موت کی آرزو کرنا منع ہے، شہادت کی یا مقدس جگہ مرنے کی آرزو کرنا جائز ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1821
1821۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے بعض نے یہ استباط کیا ہے کہ کسی دینی مصیبت یا دین کے نقصان کے خدشے کے پیش نظر موت کی دعا کی جا سکتی ہے (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی قید لگائی ہے۔) جیسے حضرت عمر فارووق رضی اللہ عنہا خلیفۂ ثانی اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ سے موت کی دعا منقول ہے کیونکہ انہیں دین کا خطرہ تھا۔ دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: 213-211/18)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1821
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 426
´مصیبت و تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا و خواہش نہیں کرنی چاہیے` ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس مصیبت و تکلیف کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا و خواہش ہرگز نہیں کرنی چاہیے . . .“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 426]
لغوی تشریح: «لَا يَتْمَنَّيَنَّ»”تمني“ سے ماخوذ ہے۔ اس میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے اور نہی کا صیغہ ہے۔ «لَضُرَّ»”ضاد“ پر ضمہ ہے اور کبھی فتحہ بھی آ جاتا ہے۔ کسی جانی اور مالی نقصان اور ضرر کی وجہ سے۔ «لَاُبدْ»”با“ پر ضمہ اور ”دال“ پر تشدید ہے۔ ضروری اور لازمی طور پر۔ «أحْيِنِيي» اس میں ہمزہ قطعی ہے یعنی باب افعال کا ہے۔ معنی ہیں، مجھے زندگی عطا فرما۔ «تَوَفَّنِيْ» مجھے وفات دے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ حدیث دنیوی مصائب و آلام اور رشتوں سے تنگ آ کر موت کی تمنا و خواہش کرنے کو مکروہ قرار دیتی ہے کیونکہ یہ عدم رضا بالقضا کی خبر دیتی ہے، البتہ شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش اور دین کے بارے میں فتنے کے اندیشے کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ نہیں ہے۔ ➋ ایک سچے پکے مومن کے لیے زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نیک آدمی زندگی کی صورت میں اپنے نیک اعمال اور صالح افعال میں اضافہ ہی کرے گا، اور سابقہ گناہوں سے اسے تائب ہونے کا موقع نصیب ہو گا۔ اگر آدمی برا ہے، بدکردار اور بداعمال ہے تو اسے موقع غنیمت ملے گا کہ توبہ کر لے اور راہ راست پر گامزن ہو کر اپنی آخروی زندگی سدھار لے، اس لیے دنیوی مصائب و آلام، مفلسی، غربت اور بیماری وغیرہ سے تنگ آخر موت کی آرزو نہ کرے، البتہ رب کائنات سے ملاقات کے شوق میں موت کی آرزو کمال ایمان کی نشانی اور علامت ہے۔ ➌ اگر دین کے بارے میں کسی فتنے اور آزمائش کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی موت کی تمنا اور آرزو کی جا سکتی ہے۔ دنیوی مشکلات و تکالیف تو مومن کی درجات کی بلندیوں پر پہنچا کا باعث ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 426
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4265
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4265]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کیونکہ اس میں نیکیاں کرکے بندہ اللہ کو راضی کرسکتاہے اور جنت کے بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔
(2) موت کی دعا زندگی کی نعمت کی ناشکری ہے۔
(3) موت کی تمنا بے صبری کا اظہار بھی ہے۔ اور اللہ کی رحمت سے مایوسی بھی، اس لئے موت کی دعا کرنے کی بجائے مشکلات ٹل جانے کی دعا کرنا زیادہ بہتر ہے۔
(4) حدیث میں ذکر کردہ دعا میں اللہ پر توکل اور اللہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرنے کا اظہار ہے۔
(5) دنیا کی مشکلات وقتی ہیں۔ جبکہ اللہ کی ناراضگی آخرت کی ابدی نعمتوں سے محرومی کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4265
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5671
5671. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا پرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اسکے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5671]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے اور بہترین وفات کی دعا مانگے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5671
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7233
7233. حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اگر میں نے نبیﷺ کو یہ فرمانے نہ سنا ہوتا:”موت کی تمنا نہ کرو“ تو میں ضرور موت کی آرزو کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7233]
حدیث حاشیہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کی عمر بہت طویل ہوئی تھی۔ انہوں نے طرح طرح کے فتنے اور فساد مسلمانوں میں دیکھے مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ خارجیوں کا زور ظلم‘ اس وجہ سے موت کو پسند کرنے لگے۔ قسطلانی نے کہا اگر آدمی کو دین کی خرابی اور فتنے میں پڑنے کا ڈر ہو تب تو موت کی آرزو کرنا بلا کراہت جائز ہے۔ میں کہتا ہوں ایک حدیث میں ہے وإذا أردتَ بعبادِك فتنةً فاقبِضني إليكَ غيرَ مفتونٍ دوسری حدیث میں ہے ایسے وقت میں میں یوں دعا کرنا بہتر ہے: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي.
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7233
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5671
5671. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر کوئی کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اسے موت کی تمنا پرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ اگر اسکے بغیر چارہ نہ ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو تو یوں دعا کرے: اے اللہ! جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میری وفات میرے لیے بہتر ہو تو مجھے فوت کرلے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5671]
حدیث حاشیہ: انسان جب تک دنیا میں رہے اپنی بہتری اور بھلائی کی دعا کرتا رہے، اور اگر اسے اپنی زندگی میں کسی فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور اسے اپنی آخرت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہو تو حدیث میں مذکورہ الفاظ سے دعا کی جا سکتی ہے۔ یہ الفاظ موت طلب کرنے کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان الفاظ میں انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے اور یہ تسلیم و رضا کے منافی بھی نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 159/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5671
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6351
6351. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی بھی اترنے والی تکلیف کی وجہ سے موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر اس نے ضرور ہی موت کی خواہش کرنی ہے تو یوں کہے: اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے وفات بہتر ہوتو مجھے یہاں سے اٹھالے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6351]
حدیث حاشیہ: عام حالات میں موت کی تمنا کرنا ناجائز ہے کیونکہ ایسا کرنا تقدیر سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔ اگر کسی تکلیف کی وجہ سے ایسا کرنا ضروری ہو تو مشروط طور پر دعا کرے جیسا کہ حدیث میں ہے کیونکہ شریعت کا ایک اصول ہے ”ضروریات، ممنوع چیزوں کو مباح کر دیتی ہیں“ اس لیے کسی خاص ضرورت کے پیش مشروط طور پر موت کی آرزو کرنا منع نہیں۔ حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ اگر موت کی آرزو کرنے والا نیک ہے تو شاید اسے مزید نیکیاں کرنے کا موقع ملے اور اگر بدکردار ہے تو ممکن ہے کہ اسے توبہ نصیب ہو جائے۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7235)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6351
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7233
7233. حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اگر میں نے نبیﷺ کو یہ فرمانے نہ سنا ہوتا:”موت کی تمنا نہ کرو“ تو میں ضرور موت کی آرزو کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7233]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نازل شدہ کسی مصیبت کے پیش نظر تم میں سے کوئی موت کی آرزونہ کرے۔ اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہوتو اس طرح دعا کرے: (اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرًا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرًا لي) ”اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میں بھلائی ہو اورمجھے فوت کرلے جب میری وفات میں بہتری ہو۔ “(صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5671) 2۔ بہرحال مصائب وآلام اور تکالیف کی وجہ سے موت کی تمنا کرنامنع ہے۔ لیکن کسی مصیبت کی وجہ سے دین کی خرابی یا فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو موت کی آرزو کرنا جائز ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7233