سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شریح حضرمی کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”وہ قرآن کو تکیہ نہیں بناتے“۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1784]
وضاحت: ۱؎: قرآن کو تکیہ بنانے کے دو معنی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ رات کو سوتے نہیں بلکہ رات بھر عبادت کرتے ہیں، دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ قرآن کو یاد نہیں رکھتے، اور اس کی قرات پر مداومت نہیں کرتے، پہلے معنی میں شریح کی تعریف ہے، اور دوسرے میں ان کی مذمت ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1784
1784۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ الفاظ مدح بھی بن سکتے ہیں اور مذمت بھی۔ مدح اس طرح کہ وہ قرآن کی توہین نہیں کرتاکہ اسے سرہانے کی طرح نیچے پھینک دے یا اس پر سر رکھ لے بلکہ وہ اس کی تعظیم و توقیر کرتا ہے۔ اور مذمت اس طرح کہ وہ قرآن کو سرہانے کی طرح لازم نہیں پکڑتا، یعنی پابندی اور ہمیشگی سے اس کی دلجمعی سے تلاوت نہیں کرتا۔ ➋ «لایتوسد القران» کا ایک ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ قرآن اس کے ساتھ سرہانہ نہیں بنتا۔ (اس صورت میں قرآن فاعل ہو گا) اس معنی کو بھی تعریف اور مذمت دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ تعریف اور مدح اس طرح کہ قرپن حفظ کرنے کے بعد وہ سویا نہیں رہتاکہ قرآن سرہانہ، یعنی نیند کا ذریعہ بن جائے بلکہوہ قرآن کے ساتھ جاگتا ہے، یعنی اسے پڑھتا ہے اور اسے یاد رکھتا ہے۔ اور مذمت اس طرح کہ اسے قرآن حفظ نہیں اور وہ اسے پڑھتا نہیں کہ جب وہ سوئے تو سرہانے کی طرح قرآن بھی اس کے ساتھ ہو۔ ➌ اس روایت کا باب، یعنی فجر کی سنتوں کے وقت سے کوئی تعلق نہیں، البتہ رات کی نماز سے تعلق ہے کہ وہ قابل تعریف چیز ہے اور رات کی نماز سے سوئے رہنا قابل مذمت ہے۔ رات کی نماز تمام گزشتہ نیک لوگوں کا دستور اور معمول رہا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1784