الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
60. بَابُ : وَقْتِ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى نَافِعٍ
60. باب: فجر کی دو رکعت (سنت) کا وقت اور نافع کی روایت میں رواۃ کے اختلاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1783
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَثَّامُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ وَيُخَفِّفُهُمَا" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اذان سنتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1783]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 5484) (صحیح) (اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: نکارت کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ اس مشہور روایت کے مخالف ہے جس میں ہے کہ آپ جب مؤذن اذان سے فارغ ہو جاتا اور صبح نمودار ہو جاتی تو دو ہلکی رکعتیں پڑھتے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اسے منکر کے بجائے شاذ کہا جائے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ متن ابن عباس رضی اللہ عنہم سے محفوظ نہیں ہے کیونکہ اسے مسلم نے اپنی صحیح میں «عروۃ عن عائشہ» کے طریق سے روایت کی ہے، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اذان سن لیتے تو فجر کی دو رکعتیں پڑھتے، اور انہیں ہلکی پڑھتے، اور احتمال اس کا بھی ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم سے جو محفوظ روایت ہے وہ اس متن کے علاوہ ہے، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1783 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1783  
1783۔ اردو حاشیہ: امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے درست نہیں بلکہ یہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے چونکہ اس کی سند میں حبیب بن ابی ثابت مدلس ہیں اور مذکورہ روایت عن سے بیان کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ قومی اندیشہ ہے کہ سند میں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ یا اس سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث نہیں آتی، کوئی اور آتی ہے۔ (دونوں توجیہات کے فرق کو غور سے سمجھا جائے۔)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1783