تشہد اول میں درود اور دعا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز میں درمیانے اور آخری دونوں قعدوں میں تشہد کے بعد درود پڑھا کرتے تھے جس پر درج ذیل احادیث دلالت کر تی ہیں۔
«عن عائشة رضي الله عنها قالت: كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ يَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّى تِسْعَ رَكَعَاتٍ لاَ يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلاَّ عِنْدَ الثَّامِنَةِ، فَيَدْعُو رَبَّهُ وَيُصَلِّى عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلاَ يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّى التَّاسِعَةَ فَيَقْعُدُ، ثُمَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ وَيُصَلِّى عَلَى نَبِيِّهِ، وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک اور وضو کا پانی تیار کر کے رکھ دیتے تو جب اللہ کی مرضی ہو تی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے وقت بیدار فرما دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرماتے پھر نو
(9) رکعتیں پڑھتے ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے اللہ سے دعا مانگتے درود پڑھتے پھر کھڑے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نویں
(9) رکعت پڑھتے اس کے آخر میں بیٹھتے اللہ کی حمد بیان کرتے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے اور دعا مانگتے پھر سلام پھیردیتے۔۔ الخ
[سنن البيهقي کتاب الصلاۃ باب في قیام اللیل (2/499/4822)، سنن ابن ماجه کتاب الصلاۃ والسنة فيها باب ماجاء فی الوتر بثلاث و خمس و تسع (1191)]
یہی حدیث صحیح مسلم میں بایں الفاظ مروی ہے:
«وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّ التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا»
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو
(9) رکعتیں پڑھتے صرف آٹھویں رکعت میں
(تشھد) بیٹھتے
(اس سے قبل نہ بیٹھتے) پس اللہ کا ذکر کرتے اس کی حمد بیان کرتے دعا مانگتے پھرکھڑ ے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نو یں رکعت پڑھتے اس میں
(تشھد) بیٹھتے اللہ کا ذکر کرتے اسکی حمد بیان کرتے اور دعا مانگتے پھر سلام پھیر دیتے۔۔۔ الخ
[مسلم كتاب صلاۃ المسافرین وقصرها باب جامع صلاۃ اللیل ومن نام عنه أو مرض (746)]
امام احمد رحمہ الله نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی مسانید میں اس روایت کو یو ں نقل کیا ہے
«ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِي رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو وَيَسْتَغْفِرُ ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ فَيَقْعُدُ فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا۔۔۔۔۔ الخ»
پهر آٹھ رکعتیں پڑھتے صرف آٹھویں رکعت میں ہی
(تشھد) بیٹھتے اور اللہ کا ذکر کرتے دعا مانگتے استغفار کرتے پھر کھڑئے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نویں رکعت پڑھتے اللہ کی حمد بیان کرتے اسکا ذکر کرتے دعا مانگتے پھر سلام پھیرتے۔۔ الخ
[مسند احمد 24269]
تو ان احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعتیں پڑھتے ان میں صرف آٹھویں رکعت میں بیٹھتے اللہ کا ذکر، اس کی حمد بیان کرتے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے دعا مانگتے، استغفار کرتے پھر کھڑے ہو جاتے سلام نہ پھرتے پھر نویں رکعت پڑھتے۔ الخ
ایک دوسری روایت جو کہ
(بخاری و مسلم)میں موجود ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو تشہد پڑھنے کا طریقہ سکھایا ہے اس میں بھی تشہد کے بعد دعا مانگنے کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے
[بخاری کتاب الاستئذان، باب السلام من أسماء الله تعالیٰ (6230)، کتاب الاذان (835) مسلم کتاب الصلاۃ باب التشهد فی الصلوة (402)]
اسی طرح یہ حدیث سنن نسائی میں شرط مسلم پر ان الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے:
«ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ مِنَ الدُّعَاءِ بَعْدُ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ يَدْعُو بِهِ»
پھر جو دعا اس کو پسند ہو وہ دعا مانگے۔
[نسائی کتاب صفۃ الصلاۃ باب تخییر الدعا بعد الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم 1298]
جس سے معلوم ہو تا ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تشہد اور دعا پڑھا کرتے تھے۔ خواہ تشہد پہلا ہو یا آخری کیونکہ تخصیص کی کو ئی دلیل نہیں ہے۔ پھر
”5
“ ھ میں سورۃ الا حزاب کے نازل ہو نے کے بعد تشہد اور دعا کے درمیان صلوۃ
(درود) کا اضافہ کیا گیا جیسا کہ سابقہ احادیث سے معلوم ہو تا ہے۔ لہٰذا پہلے اور دوسرے دونوں قعدوں میں تشہد کے بعد درود بھی پڑھنا چاہیے اور دعا بھی مانگنی چاہیے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرنے یاسننے پہ درود پڑھنے کے دلائل بھی تشہد اول میں درود پڑھنے پہ دلالت کرتے ہیں کہ اس میں بھی شہادتین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ذکر ہوتا ہے، اور ذکر رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہونے پہ درود نہ پڑھنے والوں کے لیے وعید ہے:
سیدنا حسین بن على رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«البَخِيلُ الَّذِي مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ»
وہی بخیل ہے کہ جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پہ درود نہ پڑھا۔
[جامع التر مذي: 3546]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ»
اس شخص کاناک خاک آلود ہو کہ جس کے پاس میں ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پہ درود نہ بھیجا۔
[جامع الترمذي: 3645]
تشہد درمیانہ ہو یا آخری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک آتا ہی ہے۔ اور پھر اگر کوئی درود پڑھے بغیر اٹھ جائے تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین عالیہ کے مطابق وہ بخیل اور مذکورہ بالا وعید کا مستحق بھی!۔
فائدہ:
یہاں ایک اور بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ نماز میں پڑھنے کے لیے نبی مکر م صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص درود یعنی درود ابراہیمی سکھایا ہے، اور
«قولوا» کہہ کر یہ خاص الفاظ پڑھنے کا حکم د یا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی نماز ہو اس میں درود ابراہیمی کے سوا کوئی اور درود کفایت نہیں کرے گا، کیونکہ اسی کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا ادلہ سے واضح ہے۔ البتہ نماز کے سوا کسی بھی اور موقع کے لیے کوئی درود خاص نہیں ہے، سو درود کے لیے کوئی سے بھی الفاظ اختیار کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
مانعین کے دلائل کا جائزہ
پہلی دلیل:
«عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ، قَالَ: قُلْنَا: حَتَّى يَقُومَ؟ قَالَ: حَتَّى يَقُومَ»
ابوعبیدہ اپنے والد گرامی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں
(کے تشہد) میں ہو تے تو یو ں ہو تاکہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر پر ہیں
(شعبہ) کہتے ہیں کہ ہم نے کیا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نہ ہوتے تو
(سعد بن ابراہیم نے) کیا جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑئے نہ ہو تے
(یعنی بہت جلد پہلے تشہد سے کھڑے ہو جاتے تھے)۔
[سنن ابي داود كتاب الصلاة باب فى تخفيف القعود 995]
محاکمہ:۔
اولا: اس روایت کو ابوعبیدہ عامر بن عبداللہ بن مسعود اپنے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہا ہے جبکہ ابوعبیدہ کا سماع اپنے والد عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ حدیث انقطاع کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل عمل ہے۔
ثانیا: اس روایت کے الفاظ درمیانے قعدے کے اختصار پر تو دلالت کرتے ہیں مگر تشہد ہی کے الفاظ پر اکتفاءکرنے اور درود نہ پڑھنے اور دعا نہ کر نے پر بالکل دلالت نہیں کرتے ہیں لہٰذا یہ روایت درود نہ پڑھنے کی دلیل ہی نہیں بنتی۔
دوسری دلیل:
«عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَزِيدُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ عَلَى التَّشَهُّدِ»
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں
(یعنی درمیانے تشہد میں) تشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھتے۔
[مسند أبى يعلى 7/337 4373]
محاکمہ:
اولا: مسند ابی یعلی الموصلی میں اس کی سند یوں ہے:
«حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَائِشَةَ»
تو اس سند میں ابوالجوزاء عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کر رہا ہے جبکہ محدثین کی تحقیق کے مطابق ابوالجو زاء کا عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت نہیں ہے جیسا کہ حافظ صاحب نے تھذیب التھذیب میں ابن عدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
«وقول البخاري فى إسناده نظر يريد أنه لم يسمع من مثل ابن مسعود وعائشة وغيرهما .»
” اور بخاری کا یہ کہنا کہ اس سند محل نظر ہے اس کا معنی یہ ہے کہ اس
(ابوالجوزاء) نے عبداللہ بن مسعو د اور عائشہ وغیرہ جیسو ں سے نہیں سنا۔
“ لہٰذا یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
[تهذيب التهذيب 1/ 335، 702]
ثانیا: علی بن أبی بکر الھیثمی نے مجمع الزوائد و منبع الفوائد
[2/142] میں اس روایت کو نقل کر نے کے بعد لکھا ہے
«رواه أبو يعلى من رواية أبى الحويرث عن عائشة والظاهر أنه خالد بن الحويرث وهو ثقة و بقية رجاله رجال الصحيح»
اس کو ابویعلی نے
«ابوالحويرث عن عائشه» بیان کیا ہے اور ظاہر بات یہ کہ وہ خالد بن الحویرث ہے اور وہ ثقہ ہے اور اس کے باقی تمام رجال صحیح کے رجال ہیں۔
لیکن مجھے مسند ابویعلی میں تو یہ روایت نہیں ملی جو
«ابوالحويرث عن عائشه» کے طریق سے مروی ہے شاید کسی اور جگہ ہو گی، غالب گمان یہی ہے کہ ہیثمی کو وہم ہوا ہے کہ ابوالجوزاء کے بجائے ابوالحویرث سمجھ بیٹھے ہیں۔ بہرحال بفرضِ تسلیمِ وجود، اس کی سند میں بھی مقال ہے کیونکہ ابوالحویرث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے طبقہ ثالثہ
(طبقہ وسطی من التابعین) میں سے ہے اور وہ مجہول ہے جیسا کہ میزان میں ہے:
«ابوالحويرث عن عائشة لا يعرف فان كان الأول فلم يدرك عائشة .»
وہ ابوالحویرث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے وہ تو معروف نہیں
(مجہول) ہے اگر پہلا
(ابوالحویر ث یعنی عبد الرحمن بن معاویہ) مراد ہے تو اس نے عائشہ کو نہیں پایا ہے۔
[میزان الاعتدال فی نقد الرجال 7/359 (10144)]
تو ابوالحویرث کی روایت دونوں صورتو ں میں مقبول نہیں بن سکتی ہے کیونکہ ایک ابوالحویرث جو عائشہ سے روایت کرتا ہے وہ تو ہے ہی مجہول اور دوسرا ابوالحو یرث جو عبد الرحمن بن معاویہ ہے اس نے ابن عباس کو تو پایا ہے مگر عائشہ کو نہیں پایا لہٰذا اس صورت میں روایت منقطع ہے۔ رہا علامہ ہیثمی کا یہ کہنا کہ یہ ابوالحو یرث نہیں بلکہ خالد بن الحو یر ث ہے تو وہ بھی مجہول ہے، علامہ مزی تہذیب الکمال 8/41
(1600) میں رقمطراز ہیں:
«قال عثمان بن سعيد الدار مي سألت يحيى بن معين عنه فقال لا أعرفه قال أبو احمد بن عدي وخالد هذا كما قال بن معين لا يعرف وأنا لا أعرفه أيضا وعثمان بن سعيد كثيرا ماسأل يحيى بن معين عن قوم فكان جوابه أن قال لا أعرفهم وإذا كان يحيى لا يعرفه فلا تكون له شهرة ولا يعرف .»
”عثمان بن سعید دارمی کہتے ہیں کہ میں نے یحی بن معین سے اس
(خالد بن حویرث) کے بارے میں سوال کیا تو فرمایاکہ میں اسے نہیں پہچانتا، ابواحمد بن عدی کہتے ہیں اور یہ خالد
(ابن الحویرث) جیسا کہ ابن معین نے کہا ہے مجہول ہے، اور میں بھی اسے نہیں جانتا اور عثمان بن سعید اکثر جب یحی بن معین سے لوگو ں کے متعلق پوچھتے اور وہ ان کو مژدہ
«لا أعرفهم» سنا دیتے تو اس وقت صورت حال یہ ہو تی کہ جب یحیی کسی کو نہ جانتے ہوئے تو نہ ہی اسکو شہرت حاصل ہو تی تھی اور نہ ہی وہ معروف ہو تا تھا
(یعنی ارباب علم کے ہاں وہ مجہول قرار پاتا)۔
ابن حبان کا اس کو کتاب الثقات میں ذکر کرنا کسی کام کا نہیں ہے کیونکہ محدثین کے ہان ابن حبان کی ایسی تو ثیق مقبو ل نہیں ہے۔
حاصل کلام:
یہ کہ یحیی بن معین جیسے امام الجرح والتعدیل اعلم الناس بالرجال نے بھی خالد بن الحویرث کو مجہول قرار دیا ہے لہٰذا اس کی روایات بھی ساقط الاعتبار ہیں، تو نتیجہ یہ کہ سیدہ عائشہ سے روایت کرنے والا خالد بن حویرث ہو، ابوالحویرث ہو، یا دوسرا ابوالحویرث یعنی عبدالرحمان بن معاویہ ہو تینو ں صورتوں میں یہ روایت ناقابل احتجاج ہے دو کی جہالت اور ایک کی عدم لقاء کی وجہ سے۔
ثالثا: یہ روایت منکر بھی ہے!۔ کیونکہ اس کے متن میں ابومعمر نے ثقات کی مخالفت کی ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد السلام سے اسے اسی سند کے ساتھ بایں الفاظ روایت کیا ہے:
«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ: التَّحِيَّاتُ .»
نبی صلى اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے تھے۔
[مصنف ابن أبى شيبة: 3040]
اور ان الفاظ میں حصر نہیں ہے! کہ صرف التحیات پر ہی اکتفاء کرتے تھے یا زائد بھی پڑھتے تھے۔
پھر اگر ابومعمر سے اوپر دیکھیں تو عبد السلام کے علاوہ بہت سے ثقات نے اس روایت کو بدیل سے نقل کیا ہے جو ابن ابی شیبہ کے نقل کردہ الفاظ کی تایید کرتے ہیں مثلاًً حسین المعلم نے یہ روایت بدیل سے بایں الفاظ نقل کی ہے:
«وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّةَ .»
اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعتو ں میں التحیات پڑھتے تھے۔
[صحيح مسلم: 498 واللفظ له، سنن أبى داود: 783، مستخرج أبى عوانة: 2004، مسند أبى يعلى: 4667، صحيح ابن خزيمة: 4667، مصنف عبد الرزاق: 3081، مسند إسحاق بن راهويه: 1331، مسند أحمد: 24030]
اور اسی طرح عبد الرحمن بن بدیل العقیلی نے اپنے والد بدیل سے یہ روایت اسی سند سے بایں الفاظ نقل کی ہے:
«وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتِ .»
اور وہ ہر دو رکعتوں میں التحیات پڑھتے تھے۔
[مسند الطيالسي: 1651]
عبد السلام بن حرب اگرچہ ثقہ ہیں اور صحیحین کے راوی ہیں تاہم ان کی مناکیر بھی ہیں، اور اس روایت میں انہوں نے ثقات کی مخالفت کی ہے، سو ایسی صورت میں ان کی روایت قبول نہیں کی جا سکتی۔ اصل روایت میں التحیات کا مطلق ذکر تھا، جسے غلطی سے حصر کے ساتھ ذکر کر دیا گیا، اور یہ غلطی اس روایت کی علت ہے!
الغرض یہ روایت ابوالجوزاء اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع، اور ابومعمر کی ابن ابی شیبہ کی مخالفت یا عبد السلام بن حرب کی ابن بدیل اور حسین المعلم کی مخالف کی بنا پر منکر ضعیف ہے۔
تیسری دلیل:
«عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَنْ تَشَهُّدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا، عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا، فَكُنَّانَحْفَظُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ حِينَ أَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ إِيَّاهُ، قَالَ: فَكَانَ يَقُولُ: إِذَا جَلَسَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ، وَفِي آخِرِهَا عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: ثُمَّ إِنْ كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ نَهَضَ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي آخِرِهَا دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ ثُمَّ يُسَلِّمَ»
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے رسو ل اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پہلے اور آخری تشہد کے بارے میں عبد الرحمن بن اسود بن یزید النخعی نے بتایا جسے وہ اپنے والد سے اور وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے درمیان اور آخر میں تشہد سکھایا۔ تو جب انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سکھایا ہے تو ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ سیکھتے تھے۔ تو جب وہ
(عبداللہ بن مسعود) نماز کے درمیان اور آخر میں اپنی بائیں ران پہ بیٹھتے تو کہتے
«التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» (اسود بن یزید) کہتے ہیں پھر اگر وہ
(ابن مسعود رضی اللہ عنہ) نماز کے درمیان میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی اٹھ جاتے، اور اگر آخر
(والے تشہد) میں ہوتے تو تشہد کے بعد جو چاہتے دعاء کرتے پھر سلام پھیرتے۔
[مسند أحمد: 4382]
محاکمہ:
اولا: اس روایت میں پہلے تشہد میں التحیات کے بعد کھڑے ہو جانے کا ذکر موقوف ہے یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فعل ہے جسے انہوں نے نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد سکھایا، لیکن یہ نہیں فرمایا کہ میرا یہ تشہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا ہی ہے، جیسا کہ عموماًً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم وضاحت کیا کرتے ہیں، سو یہ روایت موقوف ہے اور موقوفات دین میں حجت نہیں۔ بالخصوص جب وہ مرفوع روایت کے مخالف بھی ہوں۔
اور اس کی موقوف متصل ہونے کی دلیل ابن خزیمہ والی روایت ہے جس میں صراحت موجود ہے:
«عن ابن إسحاق قال: وحدثني عن تشهد رسول الله فى وسط الصلاة، وفي آخرها عبد الرحمن بن الأسود بن يزيد النخعي، عن أبيه قال: وكنانحفظه عن عبد الله بن مسعود كمانحفظ حروف القرآن حين أخبرنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه إياه قال فكان يقول إذا جلس . . . . . ثم إن كان فى وسط الصلاة نهض حين يفرغ من تشهده، وإن كان فى آخرها دعا بعد تشهده . . . الحديث»
”ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز کے درمیان والے اور آخر والے تشہد کے بارے میں عبدالرحمن بن الاسود نے اپنے باپ اسود بن یزید سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یاد کرتے تھے جیسے کہ ہم قرآن کے حروف یاد کرتے ہیں جب انہوں
(عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو یہ
(تشہد) سکھایا ہے تو جب وہ بیٹھتے تو کہتے . . . . . پھر اگر وہ نماز کے درمیان میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہو کر کھڑے ہو جاتے اور اگر آخر والے تشہد میں ہوتے تو تشہد کے بعد دعا مانگتے . . . . .
[ابن خزیمہ 350/1 (708)]
یہی روایت ابن خزیمہ
[348/1، 702] میں ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے:
«أنا عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه التشهد فى الصلاة أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ التَّشَهُّدَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ: كُنَّانَحْفَظُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ كَمَانَحْفَظُ حُرُوفَ الْقُرْآنِ الْوَاوَ وَالْأَلِفَ، فَإِذَا جَلَسَ عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى قَالَ: . . . .»
اسود بن یزیدکہتے ہیں کہ ہمیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نماز میں تشہد پڑھنا سکھایا۔ کہتے ہیں
(اسود بن یزید)کہ ہم اس کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یاد کرتے تھے جیسا کہ قرآن مجید کے حروف واؤ، الف وغیرہ یاد کرتے تھے، تو جب وہ بیٹھتے تو۔۔۔ الحدیث
ان روایات سے یہ بات روز رو شن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے اور کان یقول اور اذا جلس کی ضمیریں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف لوٹتی ہے۔ ان کے فاعل عبداللہ بن مسعود بنتے ہیں اور
«إذا جلس» اسود بن یزید نخعی کا مقولہ ہے۔
درج بالا بحث سے معلوم ہو اکہ یہ روایت موقوف ہے اور موقوف روایات دین حجت نہیں۔
ثانیا: اصول یہ ہے کہ کبھی
”جزء
“ بول کر
”کُل
“ مراد لیا جاتا ہے۔ اس جگہ بھی قعدہ اولیٰ اور اخیرہ میں تشہد سے مراد تشہد مع درود ہی ہے۔ اگر تشہد سے صرف تشہد ہی مراد لیا جائے تو اس روایت کے مطابق آخری رکعت والے تشہد میں بھی تشہد کے بعد دعا مانگنے کا ذکر ہے، درود پڑھنا آخری رکعت میں بھی ثابت نہیں ہو رہا۔
اگر اس اصول کو بھی مدنظر رکھ لیا جائے کہ
”عدم ذکر عدم ثبوت کو مستلزم نہیں ہوتا
“ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ آخری رکعت میں درود کے ثبوت کے لیے دیگر روایات کا سہارا لینا پڑے گا تو دیگر روایات بعینہٖ قعدہ اولیٰ میں بھی درود پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا دونوں کا معاملہ یکساں ہے اور یہ روایت بھی مانعین کے لیے دلیل بننے سے قاصر ہے۔
ثالثا: اس روایت کے بھی متن میں نکارت ہے! سو یہ بھی معرض استدلال سے خارج ہے!۔ کیونکہ ابن اسحاق اگرچہ صدوق، حسن الحدیث الحدیث ہیں، لیکن ان کے حافظہ میں کچھ معمولی سا مسئلہ تھا، سو جب ان کی روایت کے سُقم پہ قرینہ موجود ہو تو ان کے تفرد کو قبول کرنے سے احتراز لازم ہے۔ اور یہ روایت بھی اسی قبیل سے ہے۔ کیونکہ وہ اس روایت کو نقل کرنے میں اضطراب کا شکار ہوئے ہیں۔ کبھی تو پہلے تشہد میں تورک کا ذکر کیا ہے
(جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں ہے) اور کبھی نہیں کیا، اور کبھی پہلے تشہد میں التحیات کے فور ا بعد اٹھنے کا ذکر کیا ہے اور کبھی نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
«مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَشَهَّدُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: وَكُنَّانَحْفَظُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَانَحْفَظُ حُرُوفَ الْقُرْآنِ الْوَاوَاتِ وَالْأَلِفَاتِ، قَالَ: ”إِذَا جَلَسَ عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى قَالَ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَدْعُو إِلَهَهُ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَيَنْصَرِفُ»
محمد بن اسحاق، عبد الرحمن الاسود سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تشہد پڑھا کرتے تھے، کہتے ہیں کہ ہم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا کرتے تھے جیسا کہ قرآن کے حروف واؤ اور الف سیکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب بائیں ران پہ بیٹھتے تو کہتے:
«التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ .»
پھر اللہ سے دعاء مانگتے پھر سلام پھیرتے اور رخ پھیر لیتے۔
[المعجم الكبير للطبراني: 9932]
یہاں درمیانے تشہد کا کوئی ذکر تک نہیں ہے!، اور اسود بن یزید کے مقولہ
«كُنَّانَحْفَظُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ» كو بھی ان الفاظ میں بدل دیا ہے
«وَكُنَّانَحْفَظُهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» ۔
مزید دیکھیے:
«عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْلِسُ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى»
ابن اسحاق، عبد الرحمن الاسود سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کے آخر میں اپنی بائیں ران پہ بیٹھتے تھے۔
[صحيح ابن خزيمة: 701]
اس روایت میں پہلے قعدے میں تورک کا ذکر نہیں صرف آخری قعدے میں تورک کا ذکر ہے۔
پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو تشہد سیکھنے سے متعلق روایت ہے، اسے ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کیا ہے اس میں تشہد اول یا ثانی کا کوئی ذکر تک نہیں ہے! جیسا کہ صحیحین میں ہے
(صحیح البخاری: 835، صحیح مسلم: 402) بلکہ اس میں تو مطلق تشہد اور اس کے بعد دعاء کا ذکر ہے۔ اور اسے کسی ایک تشہد کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل بھی نہیں، اور یہ روایت تو محض تشہد پڑھ کر اٹھنے کے خلاف دلیل بنتی ہے۔ اور پھر عبداللہ بن سخبرہ کی ان سے روایت
(صحیح البخاری: 6265) کہ جس میں قرآن کی سورت سکھانے کی طرح تشہد سکھانے کا ذکر ہے، اس میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
بلکہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح مرفوعا ہر دو رکعتوں میں تشہد اور دعاء ثابت ہے، ملاحظہ فرمائیں:
«كُنَّا لَانَدْرِي مَانَقُولُ فِي الصَّلَاةِ، حَتَّى قَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِذَا جَلَسْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ ہم نماز میں کیا کہیں حتى کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ہر دو رکعتوں میں بیٹھو تو کہو:
«التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»
پھر تم میں سے ہر کوئی جو دعاء اسے پسند ہو کر لے۔
[المعجم الكبير للطبراني: 9914، واللفظ له، مسند أحمد: 4160، وإسناده على شرط مسلم، سنن النسائي: 1163 والكبرى ط۔ تأصيل 838 وط۔ الرسالة753، مسند الطيالسي: 302]
یہ روایت جہاں پہلے تشہد میں دعاء کو ثابت کرتی ہے وہاں یہ تشہد کے عدم پہ مزعومہ دلیل کی نکارت بھی واضح کرتی ہے۔ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبی مکر م صلى اللہ علیہ وسلم نے ہر دو رکعتوں میں تشہد کے بعد دعاء بھی سکھائی تھی۔ اور یہ وضاحت شروع میں کی جا چکی ہے کہ یہ سورہ احزاب میں درود کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ جب سلام کے ساتھ درود پڑھنے کا حکم بھی آگیا تو دعاء اور سلام کے درمیان میں درود کا اضافہ ہو گیا۔
نتیجۃ البحث:۔
اس تمام بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ پہلے تشہد میں درود پرھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حكما اور عملا ثابت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، جیسا کہ فہم صحابہ اس بات پر دال ہے، نیز یہ کہ اس کو ترک کرنے کے لیے کوئی بھی دلیل موجود نہ ہے۔ اور الله اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم فرضیت پہ دلالت کرتا ہے، جب اس کے لیے کوئی قرینہ صارفہ نہ ہو، اور اس باب میں بھی کوئی صارف موجود نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین
منقول از:
تشہد اول میں درود اور دعاء - محمد رفیق طاہر