الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
18. بَابُ : كَيْفَ يَفْعَلُ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ قَائِمًا وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ عَنْ عَائِشَةَ فِي ذَلِكَ
18. باب: جب نماز کھڑے ہو کر شروع کرے تو کیسے کرے؟ اور اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے والوں کے اختلاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1650
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، قال: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى جَالِسًا حَتَّى دَخَلَ فِي السِّنِّ، فَكَانَ يُصَلِّي وَهُوَ جَالِسٌ يَقْرَأُ، فَإِذَا غَبَرَ مِنَ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ بِهَا ثُمَّ رَكَعَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی ہو یہاں تک کہ آپ بوڑھے ہو گئے، تو (جب آپ بوڑھے ہو گئے) تو آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھ کر قرآت کرتے، پھر جب سورۃ میں سے تیس یا چالیس آیتیں باقی رہ جاتیں تو ان کی قرآت کھڑے ہو کر کرتے، پھر رکوع کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1650]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17139) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريلم تر رسول الله يصلي صلاة الليل قاعدا قط حتى أسن يقرأ قاعدا حتى إذا أراد أن يركع قام فقرأ نحوا من ثلاثين آية أو أربعين آية ثم ركع
   صحيح البخارييصلي جالسا فيقرأ وهو جالس فإذا بقي من قراءته نحو من ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأها وهو قائم ثم يركع ثم سجد يفعل في الركعة الثانية مثل ذلك فإذا قضى صلاته نظر فإن كنت يقظى تحدث معي وإن كنت نائمة اضطجع
   صحيح البخاريما رأيت النبي يقرأ في شيء من صلاة الليل جالسا حتى إذا كبر قرأ جالسا فإذا بقي عليه من السورة ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأهن ثم ركع
   صحيح مسلمما رأيت رسول الله يقرأ في شيء من صلاة الليل جالسا حتى إذا كبر قرأ جالسا حتى إذا بقي عليه من السورة ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأهن ثم ركع
   صحيح مسلميصلي جالسا فيقرأ وهو جالس فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأ وهو قائم ثم ركع ثم سجد ثم يفعل في الركعة الثانية مثل ذلك
   صحيح مسلميقرأ فيهما فإذا أراد أن يركع قام فركع
   صحيح مسلميقرأ وهو قاعد فإذا أراد أن يركع قام قدر ما يقرأ إنسان أربعين آية
   جامع الترمذييصلي جالسا فيقرأ وهو جالس فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأ وهو قائم ثم ركع وسجد ثم صنع في الركعة الثانية مثل ذلك
   سنن أبي داودما رأيت رسول الله يقرأ في شيء من صلاة الليل جالسا قط حتى دخل في السن فكان يجلس فيها فيقرأ حتى إذا بقي أربعون أو ثلاثون آية قام فقرأها ثم سجد
   سنن أبي داوديصلي جالسا فيقرأ وهو جالس وإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأها وهو قائم ثم ركع ثم سجد ثم يفعل في الركعة الثانية مثل ذلك
   سنن النسائى الصغرىيصلي وهو جالس فيقرأ وهو جالس فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأ وهو قائم ثم ركع ثم سجد ثم يفعل في الركعة الثانية مثل ذلك
   سنن النسائى الصغرىما رأيت رسول الله صلى جالسا حتى دخل في السن فكان يصلي وهو جالس يقرأ فإذا غبر من السورة ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأ بها ثم ركع
   سنن النسائى الصغرىيقرأ وهو قاعد فإذا أراد أن يركع قام قدر ما يقرأ إنسان أربعين آية
   سنن ابن ماجهيقرأ وهو قاعد فإذا أراد أن يركع قام قدر ما يقرأ إنسان أربعين آية
   سنن ابن ماجهيصلي في شيء من صلاة الليل إلا قائما حتى دخل في السن فجعل يصلي جالسا حتى إذا بقي عليه من قراءته أربعون آية أو ثلاثون آية قام فقرأها وسجد
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم يصلي وهو جالس، فيقرا وهو جالس، فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين او اربعين آية
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم يقرا قاعدا، حتى إذا اراد ان يركع قام فقرا نحوا من ثلاثين او اربعين آية، ثم ركع
   مسندالحميديأن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي بالليل قائما فلما أسن صلى جالسا فإذا بقيت عليه ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأها ثم ركع

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1650 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1650  
1650۔ اردو حاشیہ: بعض کا قول ہے کہ ان دو روایات میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، وہ بڑھاپے کے دور کا ہے جیسا کہ دوسری حدیث میں صراحت ہے۔ پہلی دواحادیث میں بڑھاپے سے قبل کا طریقہ بیان کیا گیا ہے، لہٰذا یہ حقیقتاً اختلاف نہیں اگرچہ ظاہراً اختلاف ہے، نیز اسے تعدد احوال پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کھڑے ہو کر اور کبھی بیٹھ کر نماز پڑھ لیتے تھے۔ اس طرح دونوں قسم کی احادیث میں ظاہری تعارض رفع ہو جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1650   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 155  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے`
«. . . 378- وعن عبد الله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان وأبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن أبى سلمة بن عبد الرحمن عن عائشة أم المؤمنين أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهو جالس، فيقرأ وهو جالس، فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأ وهو قائم، ثم ركع، ثم سجد، ثم يفعل فى الركعة الثانية مثل ذلك. . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے (نفل) نماز پڑھتے اور قرأت بھی بیٹھے ہوئے ہی کرتے تھے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات سے تیس یا چالیس آیتوں کی مقدار باقی رہتی تو اٹھ کر قرأت کرتے، پھر حالت قیام سے ہی رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 155]
تخریج الحدیث:
[واخرجه البخاري 1119 و مسلم 731/112 من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے ورنہ فرائض میں قیام فرض ہے۔
➋ اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز شروع کرے اور بعد میں دوسری یا کسی رکعت میں اس کی طبیعت بہتر ہو جائے تو وہ باقی نماز کھڑے ہوکر پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز شروع کرے مگر بعد میں اس کی طبیعت خراب ہو جائے جس کی وجہ سے اس کے لئے کھڑا ہونا مشکل ہو تو باقی نماز حسب استطاعت بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔
➌ نفل نماز بیٹھ کر پڑھنی جائز ہے لیکن ثواب آدھا ملے گا۔ دیکھئے [التمهيد 19/169] تاہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا ثواب ملتا تھا۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 378   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 156  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے`
«. . . 455- وبه: أنها أخبرته أنها لم تر رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الليل قاعدا قط حتى أسن، فكان يقرأ قاعدا، حتى إذا أراد أن يركع قام فقرأ نحوا من ثلاثين أو أربعين آية، ثم ركع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی عمر کے ہوئے تو آپ بیٹھ کر قرأت کرتے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کا رادہ کرتے تو کھڑے ہو کر تیس یا چالیس کے قریب آیتیں پڑھتے پھر رکوع کرتے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 156]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1118، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حتی الوسع نفل نماز کھڑے ہو کر پڑھنی چاہئے تاہم عذر کی صورت میں فرض نماز بھی بیٹھ کر پڑھنی جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اور سب سے بڑھ کر اس کی عبادت کرنے والے تھے۔
➌ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث سابق: 7، 112، 378]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 455   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 953  
´بیٹھ کر نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ عمر رسیدہ ہو گئے تو اس میں بیٹھ کر قرآت کرتے تھے پھر جب تیس یا چالیس آیتیں رہ جاتیں تو انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر سجدہ کرتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 953]
953۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نوافل میں جائز ہے کہ انسان بیٹھ کر ابتداء کرے اور اثنائے قرأت میں کھڑا ہو جائے یا کھڑے ہو کر ابتداء کرے اور درمیان میں بیٹھ جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 953   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1226  
´نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (نفل نماز میں) بیٹھ کر قراءت کرتے تھے، جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اتنی دیر کے لیے کھڑے ہو جاتے جتنی دیر میں کوئی شخص چالیس آیتیں پڑھ لیتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1226]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نبی اکرم ﷺ کی نماز تہجد بہت طویل ہوتی تھی۔
اور آپﷺ اس میں طویل قراءت کرتے تھے۔

(2)
کھڑے ہوکر نماز پڑھتے وقت اگر کچھ قیام بیٹھ کے کرلیا جائے تو جائز ہے۔
اس صورت میں رکوع اور قومہ کھڑے ہوکر کیا جائےگا۔
  لیکن اگر پورا قیام بیٹھ کر کیا جائے تو رکوع اور قومہ بھی بیٹھ کر ادا کیا جائےگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1226   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:192  
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ نفلی نماز بھی کھڑے ہو کر پڑھنی چاہیے۔ بعض لوگوں نے معمول بنا لیا ہے کہ وہ نفلوں کو بیٹھ کر ہی پڑھتے ہیں، اور تندرست بھی ہوتے ہیں، یہ خلاف سنت بیماری یا کمزوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عذر نہ ہونے پر بیٹھ کر نماز پڑھنے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 192   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1705  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھے بیٹھے قرأت کرتے، جب آپ ﷺ کی قرأت تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو آپﷺ کھڑے ہو کر قرأت فرماتے، پھر رکوع کرتے پھر سجدہ کرتے، پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1705]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپﷺ تہجد میں طویل قرآءت فرماتے تھے جب تک آپﷺ عمررسیدہ نہیں ہوئے اور جسم مبارک بھاری نہیں ہوا تھا تب تک آپﷺ قرآءت کھڑے ہو کر فرماتے رہے جب طبیعت میں عمر رسیدگی کے آثار نمایاں ہو گئے جسم بوجھل ہو گیا تو طویل قرآءت کھڑے کھڑے مشکل ہو گئی تو آپﷺ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کچھ رکعات کھڑے ہو کر پڑھ لیتے اور کچھ بیٹھ کر اور بعض دفعہ ایسے بھی کیا کہ قرآءت کھڑے ہو کر شروع کرنے کی بجائے بیٹھ کر شروع کی اور آخر ٍٍٍٍٍمیں کھڑے ہوگئے۔
اس لیے یہ جائز ہے کہ انسان بیٹھ کر نماز شروع کرے اور پھر کھڑا ہو جائے یا کھڑے ہو کر نماز شروع کرے اور پھر بیٹھ جائے ظاہر ہے اس کی ضرورت اس صورت میں پیش آئے گی جب قرآءت طویل کرنی ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1705   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1707  
علقمہ بن وقاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا، رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر دو رکعت کیسے پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا، آپﷺ قرأت کرتے رہتے تو جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے کھڑے ہو جاتے اور رکوع کرتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1707]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بیٹھ کر قرآءت کرنے کے بعد کھڑے ہو کر رکوع کرنے کی صورت وہی ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1707   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1119  
1119. ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھتے اور بیٹھنے کی حالت میں قراءت کرتے اور جب تقریبا تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے اور بحالت قیام انہیں تلاوت فرماتے، پھر رکوع کرتے اور سجدے میں چلے جاتے۔ اس کے بعد دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے۔ اور جب نماز سے فارغ ہو جاتے تو دیکھتے، اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ محو گفتگو ہوتے اور اگر میں نیند میں ہوتی تو آپ بھی لیٹ جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1119]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ بیٹھ کر نماز شروع کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ نمازی اپنی تمام نماز بیٹھ کر ہی مکمل کرے کیونکہ جس طرح بیٹھ کر شروع کرنے کے بعد کھڑا ہونا درست ہے، اسی طرح کھڑے ہو کر شروع کرنے کے بعد بیٹھ جانا بھی جائز ہے۔
ان دونوں حالتوں میں کوئی فرق نہیں، نیز جو انسان لیٹ کر نماز پڑھتا ہے، پھر دوران نماز میں اسے بیٹھ کر یا کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بھی سابقہ نماز پر بنیاد رکھتے ہوئے اپنی بقیہ نماز کو بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر پورا کرے۔
بعض فقہاء اس کی اجازت نہیں دیتے، لیکن یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔
(2)
ابن بطال فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ کا عنوان فرض سے متعلق ہے جبکہ احادیث نفل نماز کے بارے میں ہیں، امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے استنباط فرمایا ہے کہ جب نفل نماز میں بغیر کسی عذر کے بیٹھنا جائز ہے لیکن پھر بھی رسول اللہ ﷺ رکوع سے پہلے کھڑے ہو جاتے تھے، تو فرض نماز جس میں بلا عذر بیٹھنا جائز ہی نہیں، جب عذر زائل ہو جائے تو پھر قیام بطریق اولیٰ جائز ہو گا کیونکہ اس میں اب بیٹھنے کا عذر ختم ہو چکا ہے۔
(فتح الباري: 781/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1119   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1148  
1148. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے کبھی نبی ﷺ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا حتی کہ جب آپ عمر رسیدہ ہو گئے تو بحالت نماز بیٹھ کر قراءت فرماتے۔ جب کسی سورت کی تیس یا چالیس آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے اور انہیں پڑھ کر رکوع فرماتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1148]
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے ان حضرات کی تردید ہوتی ہے جن کا موقف ہے کہ جب نماز تہجد بحالت قیام شروع کی جائے تو رکوع کھڑے ہو کر کرنا چاہیے اور جب اس کا آغاز بیٹھ کر کیا جائے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرنا چاہیے۔
ان حضرات کی دلیل حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قراءت بحالت قیام کرتے تو رکوع کھڑے ہو کر کرتے اور جب قراءت بیٹھ کر کرتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔
(صحیح ابن خزیمة: 239/2)
امام بخاری ؒ کی بیان کردہ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھ کر قراءت کرتے، جب کچھ آیات باقی رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر انہیں پڑھتے اور بحالت قیام رکوع فرماتے۔
واضح رہے کہ صحیح ابن خزیمہ کی مذکورہ روایت کے متعلق حضرت ہشام نے بہت سخت موقف اختیار فرمایا ہے۔
راوئ حدیث ابو خالد کہتے ہیں کہ جب میں نے عبداللہ بن شقیق کی اس روایت کا تذکرہ حضرت عروہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن شقیق غلط کہتا ہے۔
اس کے بعد اپنے باپ حضرت عروہ سے مروی حدیث کو بیان کیا جسے امام بخاری ؒ نے پیش کیا ہے۔
امام ابن خزیمہ ؒ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ عبداللہ بن شقیق سے مروی حدیث کا مطلب ہے کہ جب پوری قراءت کھڑے ہو کر کرے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرنا چاہیے اور جب پوری قراءت بیٹھ کر کی جائے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرنا چاہیے۔
اور حضرت عروہ کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر قراءت کا کچھ حصہ بیٹھ کر اور کچھ حصہ کھڑے ہو کر پڑھا جائے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرنا چاہیے۔
(صحیح ابن خزیمة: 240/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1148