خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (وہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے) کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری رات نماز پڑھتے دیکھا یہاں تک کہ فجر ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز سے سلام پھیرا، تو خباب رضی اللہ عنہ آپ کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نے آج رات ایسی نماز پڑھی کہ اس طرح میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں یہ رغبت اور خوف کی نماز تھی، میں نے اپنے رب سے اس میں تین باتوں کی درخواست کی، تو اس نے دو مجھے دے دیں اور ایک نہیں دی، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہمیں اس چیز کے ذریعہ ہلاک نہ کرے جس کے ذریعہ اس نے ہم سے پہلے کی امتوں کو ہلاک کیا، تو اس نے یہ مجھے دے دی، اور میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ کسی دشمن کو جو ہم میں سے نہ ہو ہم پر غالب نہ کرے، تو اسے بھی اس نے مجھے دے دیا، اور میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ ہم میں پھوٹ نہ ڈالے، اور ہم گروہ در گروہ نہ ہوں، تو اس نے میری یہ درخواست قبول نہیں کی“۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1639]
صلاة رغب ورهب سألت ربي فيها ثلاث خصال فأعطاني اثنتين ومنعني واحدة سألت ربي أن لا يهلكنا بما أهلك به الأمم قبلنا فأعطانيها سألت ربي أن لا يظهر علينا عدوا من غيرنا فأعطانيها سألت ربي أن لا يلبسنا شيعا فمنعنيها
صلاة رغبة ورهبة إني سألت الله فيها ثلاثا فأعطاني اثنتين ومنعني واحدة سألته أن لا يهلك أمتي بسنة فأعطانيها سألته أن لا يسلط عليهم عدوا من غيرهم فأعطانيها سألته أن لا يذيق بعضهم بأس بعض فمنعنيها
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1639
1639۔ اردو حاشیہ: ➊ عموماً ساری رات نہیں جاگنا چاہیے کیونکہ اس سے جسمانی ضعف پیدا ہو گا۔ ہو سکتا ہے پھر فرائض ادا کرنے کے بھی قابل نہ رہے، البتہ کبھی کبھار یا مخصوص راتوں میں ساری رات جاگا جا سکتا ہے۔ غالباً ترجمۃ الباب سے امام صاحب رحمہ اللہ کی یہی غرض معلوم ہوتی ہے۔ ➋ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری دعا قبول نہیں فرمائی۔ جس طرح کفروباطل کو کسی دور میں بھی مکمل ختم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اختلاف اور فرقہ بندی بھی کلیتاً ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر اختلاف ختم ہونا ممکن ہوتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جیسی مقدس اور بے غرض جماعت میں اختلاف نہ ہوتا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اختلاف کو مخالفت نہ بنایا جائے، بلکہ اختلاف کو، اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ہے، گوارا کیا جائے۔ ویسے بھی ہر شخص کو اس جہان میں رہنے کا حق ہے، لہٰذا تشدد نہ کیا جائے۔ اختلافات اگر افہام و تفہیم سے ختم ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہے ورنہ انہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر چھوڑ دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ان کی بنا پر لڑائی کی جائے یا کفر کے فتوے لگائے جائیں یا قتل و قتال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ چیزیں ان کے لیے ہیں جو سرے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہیں پڑھتے۔ عجب بات ہے کہ کافروں کے بجائے اسلامی فرقوں سے جنگ کی جائے۔ اعافنا اللہ منہ۔ ➌ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1639
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2175
´امت کے لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تین دعاؤں کا بیان۔` خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کافی لمبی نماز پڑھی، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا: ”ہاں، یہ امید و خوف کی نماز تھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو کو قبول کر لیا اور ایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ دعا قبول کر لی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2175]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی میری دو دعائیں میری امت کے حق میں مقبول ہوئیں، اور تیسری دعا مقبول نہیں ہوئی، گویا یہ امت ہمیشہ اپنے لوگوں کے پھیلائے ہوئے فتنہ و فساد سے دوچار رہے گی، اور اس امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک، اور قتل کریں گے، اور حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امت کے لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق نہ بنالیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2175