ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی کو اونگھ آئے اور وہ نماز میں ہو تو وہ جلدی سے نماز ختم کر لے، ایسا نہ ہو کہ وہ (اونگھ میں) اپنے حق میں بدعا کر رہا ہو اور جان ہی نہ سکے“۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 162]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 16769)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 53 (212)، صحیح مسلم/المسافرین 31 (786)، سنن ابی داود/الصلاة 308 (1310)، سنن الترمذی/الصلاة 146 (355)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 184 (1370)، موطا امام مالک/صلاة الیل 1 (3)، مسند احمد 6/56، 205، سنن الدارمی/الصلاة 107 (1423) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مصنف نے یہ اخذ کیا ہے کہ اونگھ ناقض وضو نہیں ہے کیونکہ اگر ناقض وضو ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اس ڈر سے منع نہ فرماتے کہ وہ اپنے حق میں بدعا کر رہا ہو، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے کہ اونگھنے کی حالت میں نماز درست نہیں ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 162
162۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اونگھ وضو کو نہیں توڑتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چھوڑنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ ہو سکتا ہے، نمازی اپنے آپ کو بے خیالی کی حالت میں بددعا دے بیٹھے، یہ نہیں کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے، نیز اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ اونگھ آتے ہی نماز چھوڑ دے بلکہ نماز مختصر کر کے نماز سے فارغ ہو اور پھر لیٹ جائے، البتہ اگر نیند کا غلبہ اتنا زیادہ ہو کہ دعائیں اور سورتیں پڑھنی مشکل ہوں تو نماز چھوڑ کر پہلے نیند پوری کرے، پھر نماز پڑھے۔ حدیث سے یہی صورت معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ ➋ اس حدیث مبارکہ میں عبادت کے دوران میں حضور قلب اور خشوع و خضوع کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 162
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 212
´اونگھ سے یا (نیند کا) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا` «. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي فَلْيَرْقُدْ حَتَّى يَذْهَبَ عَنْهُ النَّوْمُ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى وَهُوَ نَاعِسٌ لَا يَدْرِي لَعَلَّهُ يَسْتَغْفِرُ فَيَسُبُّ نَفْسَهُ . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز پڑھتے وقت تم میں سے کسی کو اونگھ آ جائے، تو چاہیے کہ وہ سو رہے یہاں تک کہ نیند (کا اثر) اس سے ختم ہو جائے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے لگے اور وہ اونگھ رہا ہو تو وہ کچھ نہیں جانے گا کہ وہ (اللہ تعالیٰ سے) مغفرت طلب کر رہا ہے یا اپنے نفس کو بددعا دے رہا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 212]
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں یہ ثابت کرنا چاہا کہ اونگھنے سے وضو کا اعادہ لازم نہیں آتا اور اس کے ذیل میں حدیث مبارک سے استدلال اخذ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم نہیں دیا کہ اس نماز (جس میں نیند کا غلبہ اونگھ ہو) کو دوبارہ پڑھے تو معلوم ہوا کہ اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
◈ علامہ ناصرالدین ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «فيه يدل على أن النعاس اليسير لا ينا فى الطهارة»[المتواري ص 72] ”اس میں (باب اور حدیث کی مناسبت) یہ ہے کہ اونگھ جو ہے طہارت کے منافی نہیں ہوتی (یعنی اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا)۔“
◈ حافظ بن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محض اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ورنہ اس علت کی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ واضح حکم صادر فرماتے کہ وہ پھر نئے سرے سے وضو کرے۔“[فتح الباري ج1 ص416]
◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «مطابقة هذا الحديث والذي بعده للترجمة تفهم من معنى الحديث، فإن النبى صلى الله عليه وسلم لما أوجب قطع الصلاة، وأمر بالرقاد دل ذالك على أنه كان مستغرقاً فى النوم فإنه علل ذالك بقوله: فإن أحدكم . . . .»“[عمدة القاري ج3 ص165] ”علامہ عینی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ صرف اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی نماز جب تک کہ بندہ نیند میں غرق نہ ہو جائے چاہے وہ تھوڑی ہی دیر کے لئے کیوں نہ ہو اور یہی علت ہے حدیث میں مذکور. لہٰذا حدیث اور باب میں مناسبت ظاہر ہے۔“
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 171
´اگر نفل نماز کے دوران میں نیند کا غلبہ ہو تو . . .` «. . . 452- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا نعس أحدكم فى الصلاة فليرقد حتى يذهب عنه النوم، فإن أحدكم إذا صلى وهو ناعس لعله يذهب يستغفر فيسب نفسه.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو سو جائے تاکہ اس سے نیند کا اثر ختم ہو جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اونگھ کی حالت میں نماز پڑھے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ استغفار کے بجائے اپنے آپ کو بددعائیں دینا شروع کر دے۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 171]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 212، ومسلم 786، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ اپنے آپ کو خواہ مخواہ تکلیف میں مبتلا رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔ ➋ نوافل میں اپنے آپ کو صرف اس وقت تک مشغول رکھنا چاہئے جب تک طبیعت ہشاش بشاش ہو۔ تاہم نیند توڑ کر اٹھنا اور شیطان سے جنگ کرتے ہوئے تہجد کی نماز پڑھنا فضیلت کا کام ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 86] ➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رات کو جتنی اللہ چاہتا نماز پڑھتے اور رات کے آخری پہر میں اپنے گھر والوں کو نماز کے لئے اٹھا دیتے تھے۔ [الموطأ 1/119 ح258 وسنده صحيح] ➍ بےہوش، پاگل اور جس کی عقل زائل ہو اس پر نماز فرض نہیں ہے اِلا یہ کہ وہ ہوش میں آ جائے یا صحیح و تندرست ہو جائے۔ نیز دیکھئے: [سورة النساء: 45] ➎ جو چیزیں انسان کو نماز سے مشغول کر دیتی ہیں، اپنے آپ کو ان چیزوں سے حتی الامکان دور رکھنا واجب ہے تاکہ اطمینان و سکون سے نماز پڑھ سکے۔ ➏ واضح رہے کہ اس کا تعلق نفلی نماز سے ہے نہ کہ فرض نماز سے لہٰذا بعض سست اور غافل لوگوں کا اس حدیث کو فرض نماز سے کوتاہی پر بطور دلیل پیش کرنا مذموم حرکت ہے۔ ➐ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن نیند سے ٹوٹ جاتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 452
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1310
´نماز میں اونگھنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی نماز میں اونگھنے لگے تو سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند چلی جائے، کیونکہ اگر وہ اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو شاید وہ استغفار کرنے چلے لیکن خود کو وہ بد دعا کر بیٹھے ۱؎۔“[سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1310]
1310. اردو حاشیہ: فوائدو مسائل: ➊ مثلاً [اللهم اغفرلي] کے بجائے [اللهم اعفر لي] (عین کے ساتھ) کہہ بیٹھے تو اس کا معنی یہ ہوگا ”اے اللہ! مجھے خاک آلود کر۔“ ➋ نماز میں خشوع خضوع اور حضور قلبی مطلوب ہے۔ ➌ جس شخص پر نیند کا بہت زیادہ غلبہ ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے اپنی نیند پوری کرلے، پھر نماز پڑھے، اور بقول امام نووی یہ ارشاد دن، رات، فرض اور نقل تمام نمازوں کے لیے عام ہے، مگر مسلمان کو کسی طرح روا نہیں کہ اپنی نماز کو ضائع کرے۔ چاہیے کہ اپنے معمولات کو صحیح انداز سے ترتیب دے تاکہ اس کی نماز متاثر نہ ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1310
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1370
´نمازی اونگھنے لگے تو کیا کرے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی شخص کو اونگھ آئے تو سو جائے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے، اس لیے کہ اگر وہ اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھے گا تو اسے یہ خبر نہ ہو گی کہ وہ استغفار کر رہا ہے، یا اپنے آپ کو بد دعا دے رہا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1370]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نماز فرض ہو یا نفل اس کی ادایئگی کے وقت انسان کو ہوش وحواس میں ہونا چاہیے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کی تعریف اور دعا کے الفاظ سمجھ کر پڑھے۔ اور اس طرح اس کےدل اور روح کو پورا فائدہ حاصل ہو۔
(2) نماز تہجد کا وقت بہت وسیع ہے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ انسان اپنے آپ کو مجبور کر کے ساری رات یا رات کے خاص حصے میں جاگنے کی کوشش کرے۔
(3) نیند کے غلبے کے وقت نماز پڑھنا مناسب نہیں بلکہ پہلے نیند پوری کرلے۔ یا کوئی اور دوسرا طریقہ اختیار کرلے جس سے نیند ختم ہوکر دل اوردماغ ہوشیار ہوجائے۔ مثلاً وضو کرلے یا اٹھ کرچہل قدمی کرلے۔
(4) جوشخص قیام اللیل کا عادی نہیں اسے چاہیے کہ تھوڑے عمل سے شروع کرے۔ مثلا پہلے پہل دس پندرہ منٹ نماز اور اذکار میں گزارے۔ پھرآہستہ آہستہ اضافہ کرکے آدھا گھنٹہ پھر ایک گھنٹے تک لے جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1370
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:185
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز چستی اور ہوش و حواس کی حالت میں پڑھنی چاہیے، سونے اور کام کی روٹین اس طرح ہونی چاہیے کہ اس میں نماز متاثر نہ ہو۔ فرضی نماز ہر صورت وقت پر ادا کرنی چاہیے، اگر نیند آ رہی ہو تو غسل کر لینا چاہیے، یا کوئی اور طریقہ اختیار کر لیا جائے جس سے اونگھ ختم ہو جائے نفلی نماز میں اگر نیند آرہی ہو تو سو جانا چاہیے۔ نیند اور اونگھ انسان کو غافل کر دیتی ہے، اور انسان کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کا ترجمہ ہر کسی کو آنا چاہیے، تا کہ اسے معلوم ہو سکے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ہر کام سمجھ داری سے کرنا چاہیے، کوئی بھی کام غفلت میں نہیں کرنا چاہیے۔ وہ کام جس میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عبادت کرنی ہو، اس میں تو ہمیں اس کا خاص اہتمام کرنا چا ہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 185
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1835
امام صاحب مختلف اساتذہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں اونگھنے لگے تو وہ سو جائے حتیٰ کہ اس کی نیند دورہو جائے، کیونکہ جب تم میں سے کوئی شخص اونگھ کی حالت میں نماز پڑھتا ہے تو ممکن ہے وہ دعا اور استغفار کرنے کی بجائے اپنے آپ کو برا بھلا کہنے لگے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1835]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان جب نماز پڑھتا ہے اور اس پر نیند غالب ہونا شروع ہوتی ہے تو اسے یہ معلوم نہیں رہتا، میرے منہ اور زبان سے کیا نکلا ہے اور اس وجہ سے کسی نقطہ کی کمی وبیشی ہو جاتی ہے جیسا کہ معروف اردو شعر ہے۔ ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے ایک نقطہ نے ہمیں محرم سے مجرم بنا دیا انسان دعا کرتا ہے۔ (اللَّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي) اے الله!مجھے معاف فرما، اگر اس کی جگہ یہ کہہ دے۔ (اللَّٰهُمَّ اعفِرْ لِي) تو اس کا معنی ہوگا اے اللہ! مجھے زمین میں دھنسا دے، یا مجھے زمین پر پٹخ دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1835
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:212
212. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو، اس دوران میں اگر اسے اونگھ آ جائے تو وہ سو جائے تاکہ اس کی نیند پوری ہو جائے کیونکہ اگر کوئی اونگھتے ہوئے نماز پڑھے گا تو وہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے لیے استغفار کر رہا ہے یا خود کو بددعا دے رہا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:212]
حدیث حاشیہ: 1۔ نیند بذات خود ناقض وضو نہیں بلکہ وضو ہونے کا اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر جب کہ انسان کے عقل وشعور پر غالب آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونگھ کی حالت میں عمل نماز ختم کردینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ اونگھنے والے کو پورا ہوش نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اس کی زبان سے ایسا کلمہ نکل جائے جو اس کے حق میں بددعا ثابت ہو۔ لہٰذا عمل نماز کو باقی رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ اونگھنے سے وضو ٹوٹ گیا اور نماز باطل ہو گئی۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ سونے کا حکم دینے کی دو وجہیں ہو سکتی ہیں: (1) ۔ سونے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، لہٰذا نماز جاری رکھنا عبث ہے۔ (2) ۔ بے خبری کی حالت میں نماز کا عمل جاری رکھنا مصلحت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نماز نہ پڑھنے کے لیے دوسری علت بیان فرمائی ہے کہ مبادا دعا کے بجائے بددعا منہ سے نکل جائے۔ نماز باقی نہ رکھنے کے لیے پہلی علت تو وہ یہاں محقق ہی نہیں، یعنی وضو نہیں ٹوٹا بلکہ باقی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اونگھ یا جھونکے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ 2۔ امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزی نے اس حدیث کا پس منظر بایں الفاظ بیان کیا ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ایک دفعہ حولاء بنت تویت کے پاس سے گزرے تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ خاتون رات کے وقت لمبا قیام کرتی ہے، جب اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے تو چھت سے لٹکتی ہوئی رسی میں گردن ڈال دیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہدایت فرمائی کہ نماز اس قدر پڑھی جائے جتنی انسان میں طاقت ہے۔ تھک کراونگھ آنے لگے تو سو جانا چاہیے۔ (مختصر قیام اللیل، ص: 133)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 212