ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے (گھر میں) داخل ہوئے، ان کے پاس دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں، اور گانا گا رہی تھیں ۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ اپنے کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھے، تو آپ نے اپنا چہرہ کھولا، اور فرمایا: ”ابوبکر! انہیں چھوڑو کھیلنے دو، یہ عید کے دن ہیں، اور منیٰ کے دن تھے“۲؎ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مدینہ میں تھے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1598]
وضاحت: ۱؎: یہ گانا کوئی فحش گانا نہیں تھا، بلکہ ان کے آباء و اجداد کی بہادری کے قصے تھے، فحش گانے کسی بھی صورت میں اور کسی بھی موقع پر جائز نہیں، نیز جائز گانوں میں بھی موسیقی کی آمیزش ہو تو جائز نہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1598
1598۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے فوائدومسائل حدیث نمبر: 1594۔ تعجب ہے بعض لوگوں نے اس سے موسیقی اور سماع کے جواز پر استدلال کیا ہے اور، پھر اس بنیاد پر مجالس سماع ووجد منعقدکی جاتی ہیں جن میں قوال غلط سلط اشعار، جن سے توحید کے بجائے شرک پر زیادہ دلالت ہوتی ہے، آلات موسیقی سمیت الاپتے ہیں اور سامعین نہ صرف سردھنتے ہیں بلکہ وجد میں آخر بے ہودہ حرکات کرتے ہیں۔ اس لہوولعب میں مشغولیت کی بنا پر نماز اور قرآن سے بھی بے نیازی برتی جاتی ہے۔ ذرا سوچیے! کیا یہ اتفاقی اور سادہ واقعہ اتنی بڑی واہیات عمارت کی بنیاد بن سکتا ہے؟ ایک بزرگ نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر اس واقعے سے استدلال کرنا ہے تو تمام جزئیات سمیت کیا جائے۔ نابالغ بچیاں صرف دف پر جنگی اشعار پڑھیں۔ داخل ہونے والا اس میں دلچسپی نہ لے بلکہ ان سے منہ موڑ کر ایک طرف لیٹ جائے، پھر کوئی آنے والا انہیں جھڑکے اور ڈانٹے مگر اسے مارنے سے روک دیا جائے، پھر وہ بچیاں بھی خوف زدہ ہو کر چپ ہو جائیں، پھر اشارے سے انہیں بھگا دیا جائے۔ اگر اسے آپ محفل سماع یا بزم غنا کا نام دے سکیں تو بڑے شوق سے ایسی مجلس منعقد فرمائیں۔ ورنہ حدیث کا نام لے کر دین کو بدنام نہ کریں۔ موت کو یاد رکھیں اور تمام قدرتوں کے مالک اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1598