´نماز خوف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کسی غزوہ میں گیا۔ ہم دشمن کے بالکل مقابل صف بستہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ ایک جماعت نماز ادا کرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ اس جماعت کے افراد آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی دو سجدوں کے ساتھ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا تو دونوں گروہوں نے اٹھ کر الگ الگ پوری کی۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 380»
تخریج: «أخرجه البخاري، الخوف، باب صلاة الخوف، حديث:942، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:839.»
تشریح:
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔
سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔
2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔
حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔
3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔