نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی جلدی میں گھر سے مسجد کی طرف نکلے، سورج گرہن لگا تھا، آپ نے نماز پڑھی یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: ”زمانہ جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے کہ سورج اور چاند گرہن زمین والوں میں بڑے لوگوں میں سے کسی بڑے آدمی کے مر جانے کی وجہ سے لگتا ہے۔ حالانکہ سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے پر گہناتے ہیں اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے پر، بلکہ یہ دونوں اللہ کی مخلوق میں سے دو مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں جو نیا واقعہ چاہتا ہے رونما کرتا ہے، تو ان میں سے کوئی (بھی) گہنائے تو تم نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ صاف ہو جائے، یا اللہ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے“۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1491]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11615) (ضعیف) (سند میں حسن بصری مدلس ہیں اور یہاں روایت عنعنہ سے ہے، اور سند میں انقطاع ہے، تراجع الالبانی 339)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحسن البصري لم يسمع من النعمان بن بشير رضى الله عنه (جامع التحصيل للعلائي ص 162) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 333
الشمس والقمر لا ينخسفان إلا لموت عظيم من عظماء أهل الأرض الشمس والقمر لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته لكنهما خليقتان من خلقه يحدث الله في خلقه ما يشاء أيهما انخسف فصلوا حتى ينجلي أو يحدث الله أمرا
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1486
´سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔` نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو آپ گھبرائے ہوئے اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکلے یہاں تک کہ آپ مسجد آئے، اور ہمیں برابر نماز پڑھاتے رہے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا، جب سورج صاف ہو گیا تو آپ نے فرمایا: ”کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سورج اور چاند گرہن کسی بڑے آدمی کے مرنے پر لگتا ہے، ایسا کچھ نہیں ہے، سورج اور چاند گرہن نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے لگتا ہے اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اللہ تعالیٰ جب اپنی کسی مخلوق کے لیے اپنی تجلی ظاہر کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے جھک جاتی ہے، تو جب کبھی تم اس صورت حال کو دیکھو تو تم اس تازہ فرض نماز کی طرح نماز پڑھو، جو تم نے (گرہن لگنے سے پہلے) پڑھی ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1486]
1486۔ اردو حاشیہ: ”قریب ترین نماز کی طرح“ احناف نے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ نمازکسوف میں ایک رکوع ہی کرنا چاہیے، حالانکہ دو رکوع والی روایات اقویٰ اور بالکل صریح ہیں جبکہ اس روایت میں رکوع کا ذکر نہیں۔ باقی رہی تشبیہ تو وہ رکعات کی تعداد میں بھی ہو سکتی ہے، یعنی دورکعات پڑھو۔ کیا مبہم روایت کی وجہ سے بہت سی صریح اور قوی روایات کو چھوڑا جا سکتا ہے؟ پھر لطیفہ یہ ہے کہ صبح کی نماز تو جہراً ہوتی ہے۔ اس تشبیہ کے مطابق تو نمازکسوف جہراً ہونی چاہیے، مگر احناف اس کے قائل نہیں جبکہ جہر کا ذکر صحیح حدیث میں ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے موافق تو استدلال نہ کیا جائے۔ لیکن دوسری صحیح احادیث کے خلاف استدلال کیا جائے؟ واللہ ھو الموفق۔ علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو محققین نے ضعیف قرار دیا ہے، تاہم حدیث کے پہلے حصے: «ان الشمس والقمر لاینکسفان الا لموت عظیم۔۔۔ ولا لحمائۃ» کو تو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کا مجموعی مضمون دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے، البتہ اس سے اگلا حصہ محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 17؍9۔ 14، وضعیف سنن النسائی للالباتی، رقم: 1484)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1486
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1262
´سورج اور چاند گرہن کی نماز کا بیان۔` نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج میں گہن لگا تو آپ گھبرا کر اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں آئے اور سورج روشن ہونے تک برابر نماز پڑھتے رہے، پھر فرمایا: ”کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سورج اور چاند کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے، بیشک سورج اور چاند کو کسی کی موت و پیدائش کی وجہ سے نہیں گہناتے، بلکہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز پر اپنی تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے جھک جاتی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1262]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لیکن اس کا مجموعی مضمون صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
(2) موقع کی مناسبت سے وعظ ونصیحت زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اس لئے اس قسم کے موقعوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جب عوام سننے کی طرف راغب ہوں۔
(3) جاہلیت کے توہمات کا وضاحت سے رد کرنا چاہیے۔ آج کل عوام نجوم کے نام نہاد علم کی طرف بہت راغب ہیں۔ اور ستاروں اور برجوں کے اثرات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان توہمات کی سختی سے تردید کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1262