الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الجمعة
کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
41. بَابُ : مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلاَةِ الْجُمُعَةِ
41. باب: جمعہ کی ایک رکعت پا لینے والے شخص کی نماز جمعہ کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1426
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ , وَمُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَدْرَكَ مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کی نماز میں سے ایک رکعت پا لی تو اس نے (جمعہ کی نماز) پا لی۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1426]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 30 (607)، سنن الترمذی/الصلاة 260 (524)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 91 (1122)، (تحفة الأشراف: 15143)، مسند احمد 2/241، سنن الدارمی/الصلاة 22 (1256) (شاذ بذکر الجمعة) (جمعہ کا لفظ صرف مؤلف کے یہاں ہے، باقی تمام محدثین کے یہاں صرف ”صلاة“ کا لفظ ہے، تفاصیل کے لیے مذکور تخریج ملاحظہ فرمائیں، اس لیے جمعہ کا لفظ شاذ ہے)»

قال الشيخ الألباني: شاذ بذكر الجمعة والمحفوظ الصلاة

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرىمن أدرك من صلاة الجمعة ركعة فقد أدرك
   سنن ابن ماجهمن أدرك من الجمعة ركعة فليصل إليها أخرى

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1426 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1426  
1426۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت کے مفہوم سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کو ایک رکعت سے کم ملے، یعنی وہ سجدہ اور تشہد میں ملے تو وہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھے۔ جمہور اہل علم، یعنی امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق حتیٰ کہ احناف میں سے امام محمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ صحابہ سے بھی یہی ملتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ سلام سے پہلے جب بھی مل جائے تو جمعہ ہی پڑھے کیونکہ ایک حدیث ہے: «ما أدرَكْتُمْ فصلُّوا، وما فاتَكُم فاقْضوا» حالانکہ یہ حدیث خاص جمعے کے بارے میں نہیں جب کہ باب کی روایت خاص جمعے کے بارے میں ہے۔ عام و خاص کے تعارض کے وقت دلیل خاص کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اس کو جمعہ مل گیا یعنی وہ ایک اور رکعت ملا لے تو اس کا جمعہ ہو گیا۔ سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، حدیث: 1121، و إرواءالغلیل، حدیث: 622]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1426   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1121  
´جمعہ کی ایک رکعت پانے والے کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی، تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1121]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جوشخص کسی وجہ سے جمعے کی نماز میں بروقت نہ پہنچ سکے اسے اگر ایک رکعت امام کے ساتھ مل گئی تو اس کی وہ نماز جمعے کی شمار ہوگی اس لئے اسے صرف ایک رکعت مذید پڑھ کر سلام پھیرنا دینا چایے
(2)
اس میں اشارہ ہے کہ ایک رکعت سے کم ملے تو اس کی جمعے کی نماز نہیں ہوئی تب اسے ظہر کی نماز چار رکعت پڑھنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1121   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن ابن ماجہ1121  
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی، تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے... [سنن ابن ماجه 1121]
نمازِ جمعہ رہ جانے کی صورت میں ظہر کی ادائیگی
……… سوال ………
جس شخص کی جمعہ کی نماز فوت ہو جائے تو آیا وہ نمازِ جمعہ ادا کرے گا یا ظہر؟
……… الجواب ………
وہ نمازِ ظہر پڑھے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً فَلْيَصِلْ إِلَيْهَا أُخْرَي»
جو شخص جمعہ میں سے ایک رکعت پالے تو اس کے ساتھ دوسری آخری رکعت ملا لے۔
[سنن ابن ماجه: 1121، وهو حديث صحيح]
ایک روایت میں ہے کہ:
«مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا وَلْيُضِفْ إِلَيْهَا أُخْرَي»
جو شخص جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے ایک رکعت پالے تو اس نے جمعہ پالیا اور وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے۔
[سنن الدار قطني ج 2 ص 13 ح 1592، وسنده حسن]
اس حدیث کے راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْجُمُعَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، إِلَّا أَنَّهُ يَقْضِيْ مَا فَاتَهُ»
جس نے جمعہ کی ایک رکعت پالی اس نے جمعہ پالیا اور یہ کہ وہ فوت شدہ (ایک رکعت) ادا کرے گا۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ج 3 ص 204 وسنده صحيح]
یہی قول امام زہری رحمہ اللہ سے ثابت ہے اور وہ اسے وھي السنۃ (اور یہ سنت ہے) قرار دیتے تھے۔ [موطأ امام مالك ج 1 ص 105]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر (مدینہ طیبہ) میں علماء کو اسی قول پر پایا ہے۔ [موطأ امام مالك ج 1 ص 105]
اور یہی قول عروہ بن الزبیر، سالم بن عبداللہ بن عمر، نافع بن عمر، وغیرہم کا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه ج 2 ص 129، 130] وغیرہ
ان دلائل و آثار سے ثابت ہوا کہ جو شخص جمعہ کی ایک رکعت بھی نہ پا سکے تو وہ پھر دو رکعتیں نہیں پڑھے گا، لہٰذا وہ ایسی حالت میں چار رکعتیں پڑھے گا۔
ان دلائل و آثار کے مقابلے میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
جس کا جمعہ فوت ہو جائے وہ دو رکعتیں پڑھے۔ یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
[اخبار اصبهان لابي نعيم الاصبهاني ج 2 ص 200 ملخصاً]
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
محمد بن نوح بن محمد کا ذکر اخبار اصبہان اور طبقات ابی شیخ (ج 3 ص 115) میں ہے تاہم اس کی توثیق معلوم نہیں۔
احمد بن الحسین اور محمد بن جعفر کا تعین بھی مطلوب ہے۔

……… سوال ………
اگر کسی شخص کو جمعہ کے دن امام اس حالت میں ملے کہ تشہد میں ہو۔ اور وہ شخص جماعت میں شامل ہو جائے تو آیا وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دو (2) رکعت ادا کرے گا یا چار (4) رکعت؟
……… الجواب ………
یہ شخص ظہر کی چار رکعتیں پڑھے گا۔
اسی پر امام ابن منذر النیسابوری نے اجماع نقل کیاہے۔ [الاجماع ص 38 رقم 56، الاوسط ج 4 ص 107]
……… اصل مضمون ………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام (جلد 1 صفحہ 450 اور 451) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 450