مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6330
6330. حضرت وراد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو کہا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفوں کا سزا وار بھی وہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ا ے اللہ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اے اللہ!جو کچھ تو نے روک لیا اسے کوئی دینے والا نہیں۔ کسی مالدار یا بزرگ کو (تیری عبادت کی بجائے) اس کا مال یا بزرگی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ شعبہ نے منصور سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس حدیث کو حضرت مسیب سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6330]
حدیث حاشیہ:
حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما قریشی اموی ہیں ان کی ماں ہندہ بنت عتبہ ہے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں ان کو شام کا گورنر بنا دیا تھا خلافت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ میں بھی یہ شام کے حاکم رہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ شام کے مستقل حاکم بن گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت حسن نے41ھ میں امر خلافت ان کے سپرد کر دیا۔
یہ شام کے چالیس سال تک حاکم رہے۔
80برس کی عمر میں بعارضہ لقوہ ماہ رجب میں وفات پائی۔
بڑے ہی دانش مند سیاست دان۔
مرد آہنی تھے۔
ان کے دورحکومت میں اسلام کو دوردراز تک پھیلنے کے بہت سے مواقع ملے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6330
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6615
6615. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے آزاد کردہ غلام وراد سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ مجھے نبی ﷺ کی وہ دعا لکھ بھیجو جو تم نے آپ ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہو، چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہیئے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آ سکتی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے بتایا، پھر اس کے بعد میں امیر معاویہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6615]
حدیث حاشیہ:
الفاظ دعا سے ہی کتاب القدر سے مناسبت نکلی۔
عبدہ بن ابی لبابہ کی سند ذکر کرنے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ عبدہ کا سماع وراد سے ثابت ہوا کیوں کہ اگلی روایت میں اس سماع کی صراحت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6615
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:844
844. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ نبی ﷺ ہر فرض نماز کے بعد پڑھتے تھے: (لا إله إلا الله وحده۔۔۔۔ ذالجد منك الجد) ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کو کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی تونگری تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔“ امام شعبہ نے بھی عبدالملک بن عمیر سے یہ حدیث بیان کی ہے۔ حسن بصری ؓ بیان کرتے ہیں کہ جد کے معنی تونگری اور بے نیازی کے ہیں، نیز امام شعبہ نے حکم کے واسطے سے بھی یہ روایت وراد سے بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:844]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ حضرت معاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے اپنے گورنر کو خط لکھا کہ مجھے وہ وظیفہ لکھ کر ارسال کرو جسے رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد پڑھتے ہوں تو انہوں نے مذکورہ وظیفہ لکھ کر بھیجا تھا۔
طبرانی کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں:
(يحيي و يميت وهو حي لا يموت بيده الخير)
”وہ زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔
وہ ایسا زندۂ جاوید ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور اس کے ہاتھ خیروبرکت ہے۔
“ (فتح الباري: 429/2)
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ اگر حدیث میں کوئی مشکل لفظ آ جائے اور اسی طرح کا لفظ قرآن میں بھی آتا ہو تو قرآنی لفظ کا معنی بتانے کے لیے مفسرین کا حوالہ دیتے ہیں، اس مقام پر حسن بصری سے لفظ جد کی وضاحت کی ہے کہ اس کے معنی بے نیازی کے ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَنَّهُ تَعَالَىٰ جَدُّ رَبِّنَا﴾ (الجن3: 72)
”اور یہ کہ بہت بلند ہے شان ہمارے رب کی“ اکثر روایات میں یہ تفسیری بیان ذکر نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 430/2) (2)
حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:
”اے معاذ! اللہ کی قسم، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔
“ میں نے کہا:
میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔
پھر آپ نے فرمایا:
”تو میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ ضرور پڑھا کرو:
"رب أعني علی ذكرك و شكرك و حسن عبادتك" ”اے میرے رب! ذکر کرنے، شکر کرنے اور اچھی عبادت کرنے میں میری مدد کر۔
“ (سنن النسائي، الصلاة، حدیث: 1304)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 844
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6330
6330. حضرت وراد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو خط لکھا کہ رسول اللہ ﷺ ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو کہا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفوں کا سزا وار بھی وہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔ ا ے اللہ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اے اللہ!جو کچھ تو نے روک لیا اسے کوئی دینے والا نہیں۔ کسی مالدار یا بزرگ کو (تیری عبادت کی بجائے) اس کا مال یا بزرگی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ شعبہ نے منصور سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس حدیث کو حضرت مسیب سے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6330]
حدیث حاشیہ:
(1)
دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا تھا کہ مجھے وہ احادیث لکھ کر بھیجیں جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں تو انہوں نے جواب میں یہ حدیث لکھ کر بھیجی۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1477) (2)
ابن بطال نے لکھا ہے کہ ان احادیث میں ہر نماز کے بعد ذکر الٰہی کی ترغیب ہے اور یہ عمل اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے برابر ہے، نیز امام اوزاعی سے سوال ہوا کہ نماز کے بعد ذکر الٰہی بہتر ہے یا تلاوت قرآن تو انہوں نے فرمایا:
تلاوت قرآن سے بہتر تو کوئی عمل نہیں مگر سلف صالحین کا طریقہ نماز کے بعد ذکر و اذکار کا ہی تھا۔
(فتح الباري: 162/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6330
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6473
6473. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ کوئی حدیث جو تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو مجھے لکھ بھیجو، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے انہیں لکھا: میں نے آپ ﷺ سے سنا: آپ نماز سے فراغت کے بعد یہ پڑھتے تھے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہت ہے اور وہی حمد وثنا کا سزاوار ہے۔ اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔“ یہ تین مرتبہ پڑھتے تھے، نیز آپ فضول گفتگو، زیادہ سوال کرنے مال کے ضیاع اپنی چیز بچا کر رکھنے دوسروں کی چیز مانگنے ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ ہشیم کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالملک بن عمیر نے بتایا، انہوں نے کہا: میں نے وراد سے سنا، وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے وہ نبی ﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6473]
حدیث حاشیہ:
(1)
قیل و قال سے مراد ایسی لچر اور فضول گفتگو جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔
بندۂ مومن کو ایسی فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام تعلیم تھی کہ بلا ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے زبان کو روکا جائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
”انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں اور بے فائدہ کاموں سے بچے۔
“ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 3976) (2)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلا ضرورت اور بے فائدہ گفتگو نہ کرنا اور لغو و فضول مشاغل سے خود کو محفوظ رکھنا انسان کے اچھے اسلام کی علامت اور اس کے ایمان کی خوبی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان لغویات سے خود کو محفوظ رکھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6473
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6615
6615. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے آزاد کردہ غلام وراد سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ مجھے نبی ﷺ کی وہ دعا لکھ بھیجو جو تم نے آپ ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہو، چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہیئے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آ سکتی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے بتایا، پھر اس کے بعد میں امیر معاویہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6615]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ ان میں کمال توحید اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت کا ذکر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تقدیر پر ایمان لانے کے اثرات کو بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے کہ اس سے مومن کا عقیدہ راسخ اور پختہ ہو جاتا ہے کہ عطا کرنے یا روک لینے کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں۔
وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے، اس سے نوازتا ہے۔
“ (یونس: 107/10)
راسخ اور پختہ عقیدے کے نتیجے میں خودداری، جراءت مندی اور دلیری پیدا ہوتی ہے۔
جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ تمام چیزیں تقدیر الٰہی سے ہیں اسے پچھلی باتوں پر رنج اور مستقبل کا فکر دامن گیر نہیں ہوتا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6615
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7292
7292. سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ ؓ سیدنا مغیرہ ؓ کو خط لکھا کہ رسول اللہﷺ سے تم نے جو سنا ہے وہ مجھے لکھ بھیجیں، تو انہوں نے انکی طرف لکھا کہ نبی ﷺ پر نماز کے بعد کہتے تھے: ”اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لیے بادشاہی اور تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ اے اللہ! جس کو تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا اور کسی بزرگ کو اسکی بزرگی تیری مقابلے میں کوئی نفع نہیں پہنچا سکتی۔“ نیز لکھا کہ آپ ﷺ قیل وقال کثرت سوال، مال کے ضیاع ماؤں کی نافرمانی اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے اور اپنا حق محفوظ رکھنے دوسروں کا حق روکنے سے بھی روکتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7292]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت وراد حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب تھے۔
ان کابیان ہے کہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک وفد کےساتھ گیاتو میں نےدیکھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو بکثرت یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، القدر، حدیث: 6615)
2۔
اس حدیث میں کثرت ِسوال کی ممانعت ہے۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خوامخواہ سوالات کرنے کے عادی ہوتے ہیں، ان کا مقصد عملی زندگی سنوارنا نہیں بلکہ اپنی شیخی بگھارنا اور خودستائی کرنا ہوتا ہے۔
کچھ لوگ بال کی کھال اُتارنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہے، بامقصد سوالات پوچھنے کی ممانعت نہیں کیونکہ قرآن کریم کا حکم ہے:
”اگر تمھیں علم نہیں تو اہل علم سے سوال کرو۔
“ (النحل: 43)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7292