وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں بیٹھے تو آپ نے اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھا، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، آپ اس کے ذریعہ دعا کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1265]
قعد وافترش رجله اليسرى ووضع كفه اليسرى على فخذه وركبته اليسرى وجعل حد مرفقه الأيمن على فخذه اليمنى قبض اثنتين من أصابعه وحلق حلقة ثم رفع أصبعه فرأيته يحركها يدعو بها
ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 292
´ تشہد میں کیسے بیٹھیں؟` «. . . جَلَسَ يَعْنِي لِلتَّشَهُّدِ افْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى يَعْنِي عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَنَصَبَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى . . .» ”۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے لیے بیٹھے تو آپ نے اپنا بایاں پیر بچھایا اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنا دایاں پیر کھڑا رکھا۔۔۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة: 292]
� تبصرہ: اس حدث کو تورک کی ممانعت میں پیش کرنا زیادتی ہے، اس لیے کہ اہلحدیث کے نزدیک تورک صرف آخری تشہد میں ہے پہلے قعدہ میں نہیں، خود انوار صاحب نے، دستوار المتقی [ص 102]، رسول اکرم کی نماز [ص 85]، اور صلوۃ الرسول [ص 274] سے جو عبارات نقل کی ہیں ان میں اس کی صراحت ہے۔ زیر بحث حدیث پہلے تشہد کے متعلق ہے، جیسا کہ مفصل حدیث میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ انوار صاحب نے جو حدیث نقل کی ہے، وہ «عبدالله بن إدريس، حدثنا عاصم بن كليب الجرمي، عن ابيه، عن وائل ابن حجر» کے طریق سے مروی ہے۔ جبکہ عبداللہ بن ادریس کی بجائے جو حدیث امام سفیان بن عیینہ نے امام عاصم بن کلیب سے نقل کی وہ مفصل ہے اور اس میں صاف وضاحت ہے۔
حديث اور اهل تقليد ، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 39
الشيخ ابو يحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 1269
´تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا` «. . . ثُمَّ رَفَعَ اُصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُوْ بِهَا . . .» ”. . . میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اسے ہلا رہے تھے، اس کے ذریعہ دعا مانگ رہے تھے۔ . . .“[سنن نسائي: 1269]
تخریج الحدیث: [مسند الإمام أحمد: 318/4، سنن النسائي: 890، 1269، وسنده صحيح] ↰ اس حدیث کو امام ابن جارود [208]، امام ابن خزیمہ [714] اور امام ابن حبان [1860] رحہم اللہ نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ علامہ شمس الحق، عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: «وفيه تحريكها ايضا» ” اس حدیث سے شہادت کی انگلی کو حرکت دینا بھی ثابت ہوتا ہے۔“[عون المعبود شرح سنن ابي داود: 374/1]
الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 1269
´تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا` «. . . ثُمَّ رَفَعَ اُصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُوْ بِهَا . . .» ”. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا پھر اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔ . . .“[سنن نسائي: 1269]
فوائد و مسائل دورانِ تشہد انگشتِ شہادت کو حرکت دینی چاہیے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جب کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: «ثُمَّ رَفَعَ اُصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُوْ بِهَا»[نسائي، كتاب الصلاة: باب قبض الثنتين من أصابع اليد اليمني وعقد الوسطي والإبهام منها 1269] ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا پھر اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔“ مولوی سلام اللہ حنفی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں: «وِفِيْهِ تَحْرِيْكُهَا دَائِمًا اِذَا الدُّعَاءُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ» ”اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا چاہیے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے۔“ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «فَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلٰي اَنَّ السُّنَّةَ اَنْ يَّسْتَمِرَّ فِي الْاِشَارَةِ وَفِيْ تَحْرِيْكِهَا اِلَي السَّلَامِ لِاَنَّ الدُّعَاءَ قَبْلَهُ»[صفة صلاة النبى ص/158] ”اس حدیث میں دلیل ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ انگلی کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیونکہ دعا سلام سے متصل ہے۔“ اس کے علاوہ صرف ایک مرتبہ انگلی اٹھا کر رکھ دینا یا «اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ» پر اٹھانا، اس کے بارے میں صحیح احادیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی جب کہ یہ عمل مذکورہ حدیث کے منافی ہے۔ جس روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے وہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عجلان عامر بن عبداللہ بن زبیر سے بیان کرتا ہے اور محمد بن عجلان متکلم فیہ راوی ہے، اس کے علاوہ چار ثقہ راویوں نے عامر بن عبداللہ سے اسی روایت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں «لَا يُحَرِّكُهَا» کے الفاظ نہیں ہیں۔ معلوم ہوا یہ الفاظ شاذ ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی محمد بن عجلان کے طریق سے یہی روایت ذکر کی ہے، اس میں بھی «لَا يُحَرِّكُهَا» کے الفاظ نہیں ہیں۔ جب کہ اس کے مقابلے میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی روایت کو ابن ملقن، ابن قیم اور امام نووی کے علاوہ ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہم نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ صرف ”الھدایة في تخریج أحادیث البدایة“ کے مؤلف نے اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ «يُحَرِّكُهَا» والے الفاظ صرف زائدہ بن قدامہ عاصم سے بیان کرتا ہے، زائدہ کے علاوہ عاصم کے دوسرے شاگرد «يُشِيْرُ بِيَدِهِ» کے الفاظ ذکر کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات تحقیق اور انصاف سے عاری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سب محدثین نے اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے جیسا کہ معلوم ہو چکا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اشارہ والی حدیث کے ثبوت سے حرکت دینے کی نفی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور صحابہ پیچھے کھڑے تھے «فَاَشَارَ اِلَيْهِمْ اَنِ اجْلِسُوْا»”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔“[بخاري، كتاب الأذان: باب إنما جعل الإمام ليؤتم به 688] اس حدیث سے ہر عقلمند آدمی یہ سمجھے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ صرف ہاتھ کو اٹھا دینا نہیں تھا جیسا کہ آپ سلام کے جواب میں کرتے تھے، بلکہ یہ اشارہ تھا جس سے سمجھ آتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ اشارہ حرکت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اس مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اشارہ والی احادیث کو تحریک والی احادیث کے مخالف قرار دینا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی روایت ہے: «لَهِيَ اَشَدُّ عَلَي الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيْدِ»[صفة صلاة النبى للألباني ص/159] ”یہ انگلی شیطان کے لیے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے۔“ اس حدیث کو حرکت نہ دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اس میں حرکت دینے یا نہ دینے کی صراحت موجود ہی نہیں ہے، جب کہ حرکت دینا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیں کہ اس میں حرکت نہ دینے کی صراحت ہے تو پھر صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دونوں امر جائز ہیں جیسا کہ علامہ صنعانی رحمہ اللہ نے سبل السلام میں اسے ترجیح دی ہے۔ لیکن پہلی بات زیادہ پختہ ہے کیونکہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ایک خاص اہتمام کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بیان کر رہے ہیں اور خاص کر تشہد کی حالت کا اور انہوں نے تشہد میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو کسی نے بیان نہیں کیں۔ اس لیے ان کی روایت کو ترجیح ہو گی۔ مزید تفصیل کے لیے علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی کتاب ”تمام المنة“ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 0
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1269
´دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں سے دو کو سمیٹ کر رکھنے اور بیچ والی انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر حلقہ بنانے کا بیان۔` وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کیسے پڑھتے ہیں؟ تو میں نے دیکھا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی، اور کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بایاں پیر بچھایا، اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کے سرے کو اپنی دائیں ران پر کیا، پھر اپنی انگلیوں میں سے دو کو سمیٹا، اور (باقی انگلیوں میں سے دو سے) حلقہ بنایا، پھر اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اسے ہلا رہے تھے، اس کے ذریعہ دعا مانگ رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1269]
1269۔ اردو حاشیہ: انگلی کو حرکت دینے کے بارے میں تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے حدیث: 890 کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1269