حدیث حاشیہ: 1۔
ایک روایت میں ہے کہ ہم اس طرح کہتے تھے:
اللہ کے بندوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کو سلام، فلاں کو سلام اور فلاں کو سلام۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
""یہ نہ کہو کہ اللہ پر سلام ہو کیونکہ وہ تو خود سلام ہے۔
'' اس کےبعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کی تعلیم دی اور فرمایا:
”جب تم اس طرح کہو گے تو آسمان میں یا آسمان وزمین کے درمیان جتنے بھی
(نیک) بندے ہیں تمہارا سلام ان سب کو پہنچ جائے گا۔
“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 835) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان کے لیے سورہ حشر کی ایک آیت کا کچھ حصہ منتخب کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے لیے"سلام" اور مومن" بطور صفاتی نام استعمال کیا گیا ہے۔
سلام کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنا ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ ہرقسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے۔
اس اعتبار سے یہ صفات سلبیہ سے ہے۔
اس کے دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ وہ دوسروں کو سلامتی عطا کرنے والا ہے۔
اس لحاظ سے یہ صفت اثباتی اور فعلی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی جنت میں بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہوگی کہ وہ اپنے بندوں کو خود سلام کہے گا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بے حد مہربان رب کی طرف سے کہا جائے گا:
(تم پر) سلام ہو۔
“ (یٰس: 58) اس اعتبار سے یہ صفت کلامی ہے۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان سے یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو مخلوقات کی تشبیہ سے پاک قرار دیا جائے اور نام یا کسی معنی میں مخلوق کے ساتھ اشتراک سے قطعاً تشبیہ مراد نہیں ہے، مثلاً:
ہاتھ، پاؤں، آنکھ یا اس طرح کی دیگرصفات جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کے لیے ثابت کیا ہے وہ اس کے شایان شان ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ مذکورہ صفت کی وجہ سے ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک اور سالم ہے۔
جب ہم اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات میں غور کرتے ہیں تو سلامتی کی صفت ہر مقام پر نمایاں ہے، مثلاً:
۔
اس کا زندہ ہونا، موت، نیند اور اونگھ سے سلامتی ہے۔
۔
اس کا قیوم ہونا، حاجت، تھکاوٹ وغیرہ سے محفوظ ہونا ہے۔
۔
اس کا علم، نسیان بھول چوک یا غور وفکر سے سالم ہے۔
۔
اس کے کلمات، جھوٹ، وعدہ خلافی سے محفوظ ہیں۔
۔
اس کی الوہیت، شراکت وغیرہ سے حفاظت میں ہے۔
۔
اس کی بادشاہت، ہر قسم کے شریک ومعاون سے محفوظ ہے۔
۔
اس کا عذاب، انتقام اور ظلم سے محفوظ ہے بلکہ سراسر عدل اور حکمت پر مبنی ہے۔
الغرض اللہ تعالیٰ کی تمام صفات، تعطیل، تشبیہ اور تاویل سے پاک اور محفوظ ہیں۔
اس حدیث میں اسی سلامتی کی صفت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کیا گیا ہے، اس لیے یہ حدیث قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے۔
4۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام "مومن" بھی ہے اور امن کے معنی ہیں:
خوف وخطر سے محفوظ ہونا۔
اس بنا پر "مومن" کے معنی ہیں:
دوسروں کو امان دینے والا اور امن عطا کرنے والا، یعنی اللہ تعالیٰ ایسا قانون دینے والا ہے جس سے فساد فی الارض کے بجائے امن وامان قائم ہو، نیز اللہ تعالیٰ کی مخلوق اس کی طرف سے ہر قسم کی حق تلفی، زیادتی یا ظلم کے خوف سے مکمل طور پر امن میں رہے۔
"مومن" کے دوسرے معنی تصدیق کرنے والا بھی ہیں، یعنی اپنی اور اپنے رسولوں کی زبانی اور عملی طورپر تصدیق کرنے والا یا اہل ایمان کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا ہے۔
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے مومن کے چھ معنی ذکر کیے ہیں اور پھر ان معانی کا انطباق ذات باری پر کیا ہے۔
یہ بحث بھی قابل مطالعہ ہے۔
(ذادالمسیر: 225/8) ہم لوگ جو ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سلام، اللہ کے اسماء میں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اہل زمین کے استعمال کے لیے وضع کیا ہے، لہذا تم اسے آپس میں ملاقات کے وقت بکثرت استعمال کیا کرو۔
“ (الأدب المفرد: 343) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(قَوْلُهُ بَابُ السَّلَامُ اسْمٌ مِنْ أَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى) "سلام، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
"
(صحیح البخاري، الاستئذان، باب: 3) پھر آپ نے مذکورہ حدیث بطور دلیل پیش کی ہے۔
علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
ملاقات کے وقت جب لوگ لفظِ "سلام" استعمال کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
(معالم السنن: 23/1) ہمارا رجحان یہ ہے کہ "سلام" کے لفظ کا اطلاق مخلوق کے لیے نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 122/1) واللہ أعلم۔