مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما دونوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے، اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو اللہ اکبر کہتے، جب وہ نماز پڑھ چکے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: انہوں نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1083]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1083
1083۔ اردو حاشیہ: ➊ پیچھے گزر چکا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہی کے دور میں بعض ائمہ نے تکبیر کہنے میں سستی شروع کر دی تھی۔ یا تو کہتے ہی نہیں تھے یا بہت آہستہ بلکہ زیر لب کتے تھے۔ یہ نزاکت تھی، کوئی عذر نہ تھا، لہٰذا ایسا کرنا مذموم تھا۔ ہاں عذر ہو تو الگ بات ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی تکبیر کی آواز پچھلی صفوں کو سنائی نہ دیتی تھی۔ ➋ حضرت علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ وہ کس قدر سنت نبوی کے محافظ اور عامل تھے کہ جب اکثر لوگ تکبیرات انتقال چھوڑ چکے تھے بلکہ بعض ان کی مشروعیت کا انکار بھی کرتے تھے، ایسے وقت میں انہوں نے ان کا احیا (انہیں زندہ) کیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1083
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 835
´تکبیر پوری کہنے کا بیان۔` مطرف کہتے ہیں میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو جب وہ سجدہ کرتے تو «الله اكبر» کہتے، جب رکوع کرتے تو «الله اكبر» کہتے اور جب دو رکعت پڑھ کر تیسری کے لیے اٹھتے تو «الله اكبر» کہتے، جب ہم فارغ ہوئے تو عمران رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: ابھی انہوں نے ایسی نماز پڑھی ہے (راوی کو شک ہے) یا ابھی ہمیں ایسی نماز پڑھائی ہے، جیسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہوتی تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 835]
835۔ اردو حاشیہ: دراصل لوگوں نے تکبیرات انتقال کہنی چھوڑ دی تھیں، تو حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے اسی سنت کی طرف اشارہ فرمایا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 835
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1181
´دوسری رکعت سے اٹھتے وقت تکبیر کہنے کا بیان۔` مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، تو وہ ہر جھکنے اور اٹھنے میں اللہ اکبر کہتے تھے، اور تکبیر پوری کرتے تھے (اس میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے) تو عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا: اس شخص نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1181]
1181۔ اردو حاشیہ: دیکھیے، حدیث: 1083۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1181
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 873
حضرت مطرف بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں نماز پڑھی، جب وہ سجدہ کرتے اللہ اکبر کہتے اور جب اپنا سر اٹھاتے اللہ اکبر کہتے،اور جب دوسری رکعت سے کھڑے ہوتے تکبیر کہتے، جب ہم نماز سے فارغ ہوتے تو عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، انہوں نے ہمیں محمد ﷺ والی نماز پڑھائی ہے یا یہ کہا انہوں نے مجھے محمد ﷺ والی نماز یاد کرا دی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:873]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ، اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ واجب فرض ہے اور باقی تکبیریں بھی ان کے نزدیک واجب (فرض) ہیں اور باقی کے نزدیک سنت، اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کے نزدیک سب تکبرات سنت ہیں صحیح احادیث کا تقاضا تو یہی ہے کہ سب تکبرات کو واجب کہا جائے۔ (2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث 28 سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہ کے بعد قومہ میں دعا پڑھتے تھے اور اس کو منفرداً (تنہا) نماز پڑھنے پر محمول کرنا، تاویل بعید ہے۔ اس لیے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف صحیح ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی، تسمیع کے بعد دعائیہ کلمات پڑھے گا یہ موقف درست نہیں ہے کہ امام صرف سمع اللہ کہے گا۔ اور مقتدی صرف دعائیہ کلمات کہے گا۔ اور اس کے لیے: (إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَه، فَقُولُوا: اللهم رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ) سے استدلال درست نہیں ہے۔ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ دعائیہ کلمات تسمع کے بعد کہے جائیں گے، استدلال کی ضرورت تو وہاں ہوتی ہے جہاں صراحت نہ ہو، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں صراحت ہے یہ تو ایسے ہی ہے کوئی کہے: (إِذَا قَالَ الْإِمَامُ (غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ فَقُولُوا: آمِينَ) کہ امام آمین نہیں کہے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 873
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 826
826. حضرت مطرف سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین ؓ نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، چنانچہ وہ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو حضرت عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز پڑھائی یا کہا کہ انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز یاد دلا دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:826]
حدیث حاشیہ: تشریح: بعض ائمہ بنی امیہ نے بآواز بلند اس طرح تکبیر کہنا چھوڑدیا تھا جو اسوہ نبوی کے خلاف تھا اس واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دور سلف میں مسلمانوں کو اسوہ رسول کی اطاعت کا بے حد اشتیاق رہتا تھا خاص طور پر نمازکے بارے میں ان کی کوشش ہوتی کہ وہ عین سنت رسول ﷺ کے مطابق نماز ادا کر سکیں۔ اس دور آخر میں صرف اپنے اپنے فرضی اماموں کی تقلید کا جذبہ باقی رہ گیا ہے حالانکہ ایک مسلمان کا اولین مقصد سنت نبوی کی تلاش ہونا چا ہیے۔ ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ نے صاف فرمادیا ہے کہ ہر وقت صحیح حدیث کی تلاش میں رہو اگر میرا کوئی مسئلہ حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے چھوڑ دو اورصحیح حدیث نبوی پر عمل کرو۔ حضرت امام کی اس پاکیزہ وصیت پر عمل کرنے والے آج کتنے ہیں؟ یہ ہر سمجھ دار مسلمان کے غور کرنے کی چیز ہے یونہی لکیر کے فقیر ہو کر رسمی نمازیں ادا کرتے رہنا اور سنت نبوی کو تلاش نہ کرنا کسی بابصیرت مسلمان کا کام نہیں۔ وقفنا اللہ لما یحب ویرضی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 826
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:784
784. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے ہمراہ بصرہ میں نماز ادا کی تو فرمایا: اس شخص (حضرت علی ؓ) نے ہمیں وہ نماز یاد دلا دی ہے جو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ جب نماز میں سر اٹھاتے اور سر جھکاتے تو اس وقت اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:784]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ کی وفات سے کچھ عرصہ بعد حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں ائمۂ مساجد نے نماز پڑھتے وقت تکبیرات انتقال کو ترک کر دیا تھا جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے ہمیں وہ نماز یاد دلا دی جو ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کرتے تھے۔ ہم نے ان تکبیرات انتقال کو بھلا دیا تھا یا دانستہ طور پر چھوڑ بیٹھے تھے۔ (فتح الباري: 349/2)(2) ترک کا سبب یہ ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی آواز طبعی حیا کی وجہ سے پست تھی یا بڑھاپے کی بنا پر کمزور ہو گئی تھی، چنانچہ نماز پڑھاتے وقت لوگوں کو ان کی تکبیرات سنائی نہیں دیتی تھیں جس سے یہ خیال کر لیا گیا کہ نماز میں تکبیرات انتقال ضروری نہیں۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عثمان اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما اور جناب زیاد کے ترک تکبیرات کے متعلق روایات پیش کی ہیں، مزید لکھا ہے کہ زیاد نے حضرت معاویہ ؓ کو دیکھ کر تکبیرات کو ترک کیا اور حضرت معاویہ نے حضرت عثمان ؓ کو دیکھ کر انہیں نظر انداز کر دیا۔ (فتح الباري: 349/2)(4) اس دور میں تکبیرات انتقال کے ترک سے مراد مطلق طور پر تکبیرات چھوڑ دینا نہیں بلکہ بآواز بلند ترک کر دینا ہے، البتہ امام طحاوی نے کچھ لوگوں کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ رکوع اور سجدے میں جاتے وقت تکبیرات نہیں کہا کرتے تھے۔ بہرحال جمہور کے نزدیک تکبیر تحریمہ واجب اور باقی تمام تکبیرات مستحب ہیں، لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ تمام تکبیرات واجب ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا ترک ثابت نہیں بلکہ آپ ہمیشہ انہیں کہتے رہے ہیں۔ آپ کا فرمان گرامی ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 784
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:826
826. حضرت مطرف سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین ؓ نے ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، چنانچہ وہ جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب سجدے سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو بھی تکبیر کہتے۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو حضرت عمران بن حصین ؓ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز پڑھائی یا کہا کہ انہوں نے ہمیں حضرت محمد ﷺ کی نماز یاد دلا دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:826]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان اور حضرت ابن زبیر ؓ کے عمل سے مذکورہ احادیث کی وضاحت کی ہے کہ تکبیر کی ابتدا دو رکعت سے فراغت کے بعد اٹھتے وقت ہی ہو جانی چاہیے کیونکہ یہ احادیث اس کے متعلق صریح نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 3939/2) دراصل شارع کا منشا یہ ہے کہ جب نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال ہو تو حرکت انتقال اللہ کے ذکر سے معمور ہونی چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور احادیث سے ثابت کیا ہے کہ دو رکعت سے فراغت کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت ہی اللہ اکبر شروع کر دیا جائے۔ (2) اس سے مالکیہ کا رد مقصود ہے جن کا موقف ہے کہ جب نمازی سیدھا کھڑا ہو جائے تو پھر "اللہ أکبر" کہے۔ ان کے موقف کے مطابق آخری دونوں رکعات کا پہلی دو رکعات سے تشاکل ہو جائے گا لیکن امور شرعیہ کا مدار یہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اسلاف کا تعامل بھی دیکھنا چاہیے اور وہ مالکیہ کے موقف کے برعکس ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 826