عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بندہ مومن وضو کرتے ہوئے کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب ناک جھاڑتا ہے تو اس کی ناک کے گناہ نکل جاتے ہیں، جب اپنا چہرہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کے گناہ نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کی دونوں آنکھ کے پپوٹوں سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھ کے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں ہاتھ کے ناخنوں کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر جب اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کے دونوں کانوں سے نکل جاتے ہیں پھر جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے دونوں پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دونوں پاؤں کے ناخن کے نیچے سے نکلتے ہیں، پھر اس کا مسجد تک جانا اور اس کا نماز پڑھنا اس کے لیے نفل ہوتا ہے“۔ قتیبہ کی روایت میں «عن الصنابحي أن رسول اللہ رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال» کے بجائے «عن الصنابحي أن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال» ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 103]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 6 (282)، موطا امام مالک/فیہ 6 (30)، (تحفة الأشراف: 9677)، مسند احمد 4/348، 349 (صحیح)»
وضاحت: ”گناہ نکل جاتے ہیں“ اس سے مراد صغائر (گناہ صغیرہ) ہیں نہ کہ کبائر (گناہ کبیرہ) اس لیے کہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ مصنف نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ دونوں کان سر ہی کا حصہ ہیں کیونکہ سر پر مسح کرنے سے دونوں کانوں سے خطاؤں کا نکلنا اسی صورت میں صحیح ہو گا جب وہ سر ہی کا حصہ ہوں، اس باب میں مصنف کو «الأذنان من الرأس» والی مشہور روایت ذکر کرنی چاہیئے تھی لیکن مصنف نے اس سے صرف نظر کیا کیونکہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حماد کو اس روایت کے سلسلہ میں شک ہے کہ یہ مرفوع ہے یا موقوف، نیز اس کی سند بھی قوی نہیں ہے، گرچہ متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے حسن درجہ کو پہنچ گئی ہے، مصنف کا اس روایت سے اعراض کر کے مذکورہ بالا روایت سے استدلال کرنا ان کی دقت نظری کی دلیل ہے۔
إذا توضأ العبد المؤمن فتمضمض خرجت الخطايا من فيه إذا استنثر خرجت الخطايا من أنفه إذا غسل وجهه خرجت الخطايا من وجهه حتى تخرج من تحت أشفار عينيه إذا غسل يديه خرجت الخطايا من يديه حتى تخرج من تحت أظفار يديه إذا مسح برأسه خرجت الخطايا من رأسه حتى تخرج من
من توضأ فمضمض واستنشق خرجت خطاياه من فيه وأنفه إذا غسل وجهه خرجت خطاياه من وجهه حتى تخرج من تحت أشفار عينيه إذا غسل يديه خرجت خطاياه من يديه إذا مسح برأسه خرجت خطاياه من رأسه حتى تخرج من أذنيه إذا غسل رجليه خرجت خطاياه من رجليه حتى تخرج من تحت أظفار
إذا توضأ العبد المؤمن فتمضمض خرجت الخطايا من فيه إذا استنثر خرجت الخطايا من أنفه إذا غسل وجهه خرجت الخطايا من وجهه حتى تخرج من تحت أشفار عينيه إذا غسل يديه خرجت الخطايا من يديه حتى تخرج من تحت أظفار يديه إذا مسح برأسه خرجت الخطايا من رأسه حتى تخرج من
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 103
103۔ اردو حاشیہ: ➊ امام صاحب کا آخری جملے «قَالَ قُتَيْبَةُ عَنْ ……» سے مقصود یہ ہے کہ اس روایت میں میرے دو اساتذہ میں سے ایک، یعنی عتبہ بن عبداللہ نے «آن رسول الله» کہا: جب کہ دوسرے استاذ قتیبہ نے «أن النبي» کہا:، اگرچہ اس لفظی اختلاف کا سند یا متن حدیث پر ذرہ بھر بھی اثر نہیں پڑتا مگر محدثین کا یہ کمال حفظ و ضبط ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کے معمولی سے اختلاف کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اس سے ان کی دیانت داری کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ رحمہم اللہ رحمہ واسعة۔ ➋ ”غلطیاں نکل جاتی ہیں۔“ اس سے مراد غلطیوں کے اثرات ہیں کیونکہ گناہوں کے اثرات متعلقہ اعضاء میں جاگزین ہو جاتے ہیں۔ وضو کے ساتھ جس طرح جسم ظاہری نجاست اور میل کچیل سے پاک ہو جاتا ہے، اسی طرح اعضائے وضو گناہوں کے اثرات سے پاک ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً جسم ظاہری اور معنوی طور پر، یعنی میل کچیل اور گناہوں دونوں سے صاف ہو جاتا ہے۔ ➌ اس حدیث میں سر اور کانوں کا مسح اکٹھا ذکر کیا گیا ہے۔ حقیقتاً بھی کانوں کا مسح الگ نہیں ہوتا بلکہ سر والے پانی ہی سے کانوں کا مسح کیا جاتا ہے۔ اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ کانوں کے لیے الگ پانی لینے کے قائل ہیں مگر یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ گویا کان سر ہی میں داخل ہیں۔ اس مفہوم کی ایک صریح روایت بھی موجود ہے۔ «الاذنان من الرأس»”کان سر میں شامل ہیں۔“[سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 134، و سنن ابن ماجه، الطھارة، حدیث: 443] بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ کانوں کا سامنے والا حصہ منہ میں داخل ہے، لہٰذا اسے منہ کے ساتھ دھویا جائے اور پچھلا حصہ سر میں داخل ہے، لہٰذا اس کا سر کے ساتھ مسح کیا جائے۔ اسی طرح بعض لوگ کانوں کو چہرے کی طرح دھونے کے قائل ہیں مگر ان کی بنیاد قیاس پر ہے۔ صحیح و صریح احادیث کے مقابلے میں قیاس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ مذموم ہے۔ ➍ جس دلیل کی طرف امام صاحب نے باب میں اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ لفظ ہیں: «خرجت الخطایا من رأسه حتٰی تخرج من أذنیه» انھی الفاظ میں سر کی غلطیوں کا کانوں سے نکلنا بتلایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کانوں کا حکم سر والا ہے، یعنی مسح۔ ➎ «نَافِلَةً»”زائد“ یعنی رفع درجات کا سبب بن جائیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 103
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث282
´وضو (طہارت) کا ثواب۔` عبداللہ صنابحی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے وضو کیا، کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تو اس کے گناہ ناک اور منہ سے نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنا منہ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے منہ سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلکوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو اس کے گناہ اس کے سر سے نکل جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کے کانوں سے بھی نکل جاتے ہیں، اور جب وہ اپنے دونوں پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گناہ اس کے دونوں پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 282]
اردو حاشہ: (1) جسم سے گناہوں کے نکل جانے کا مطلب گناہوں کی معافی ہے۔
(2) وضو سے معاف ہونے والےگناہ صغیرہ گناہ ہیں۔ کبیرہ گناہ صرف توبہ سے معاف ہوتے ہیں یا پھر اللہ تعالی اپنے خاص فضل سے معاف کردے۔ اس کے علاوہ اگر گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہوتو معافی کے لیے ان کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے یا صاحب حقوق معاف کردے۔
(3) پپوٹوں اور ناخنوں سے گناہوں کے نکل جانے کا مطلب تمام گناہوں کی معافی ہے۔ گناہوں کو ظاہری میل کچیل سے تشبیہ دی گئی ہے جسم کے بعض حصوں سے میل کچیل دور کرنے کے لیے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جب یہ بھی صاف ہوگئے تو باقی جسم یقیناً صاف ستھرا ہو چکا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وضو سے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں کوئی باقی نہیں رہتا۔ واللہ أعلم
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 282