وضاحت: ۱؎: مختصر تو اس طور سے ہوتی کہ سورتیں بہت لمبی نہ پڑھتے، اور پوری اس طرح سے ہوتی کہ سجدہ اور قیام اور قعدہ اچھے طور سے ادا کرتے، کم سے کم سجدہ اور رکوع میں پانچ یا تین تسبیحوں کے برابر ٹھہرتے، اسی طرح رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوتے، اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہتے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث985
اردو حاشہ: فائده: اس سے نماز کی تخفیف کا مطلب واضح ہوگیا کہ ارکان کی ادایئگی پورے خشوع اور اطمینان سے کی جائے لیکن تلاوت اور تسبیحات کی مقدار اتنی زیادہ نہ ہو کہ مقتدی پریشان ہوں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 985
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:706
706. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نماز کو مختصر پڑھتے اور اسے مکمل بھی کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:706]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز میں اختصار اس کے اکمال کے منافی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے اختصار کے باوجود اکمال ثابت ہے، اس لیے مستحب یہ ہے کہ نماز میں اتنی طوالت نہ کرے کہ مقتدی حضرات کے لیے گرانی کا باعث ہو اور نہ اس قدر اختصار ہوکہ ارکان و تعدیل میں نقص واقع ہو۔ اس کی وضاحت ایک حدیث میں ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مختصر اور اسے مکمل طور پر ادا کرنے والا ہو۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 708)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 706