عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ رہو! میں ہر خلیل (جگری دوست) کی دلی دوستی سے بری ہوں، اور اگر میں کسی کو خلیل (جگری دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل (مخلص دوست ہے)“۱؎۔ وکیع کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھی سے اپنے آپ کو مراد لیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 93]
وضاحت: ۱؎: خلیل ایسا جگری دوست ہے کہ جس کے سوا دل میں کسی کی جگہ نہ رہے، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا خلیل (جگری دوست) میرا اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ میرے دل میں اس کی محبت نے ذرہ برابر جگہ نہ چھوڑی کہ اب کسی کی محبت دل میں آ سکے، اور اگر ذرا بھی دل میں گنجائش ہوتی تو میں ابوبکر کو اس میں اس خصوصی دوستی والے جذبہ میں جگہ دیتا، اس حدیث سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی، اور معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جگری دوستی اور خصوصی محبت کے قابل اور مستحق ہیں۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث93
اردو حاشہ: (1)(خلیل) کا لفظ (خلت) سے ماخوذ ہے۔ یہ محبت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے جس میں شراکت ممکن نہیں۔ اس سے کم درجے کی محبت ایک سے زیادہ افراد سے ممکن ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا لفظ تو دوسروں کے لیے بھی فرمایا ہے، لیکن خلت کا اطلاق کسی اور پر نہیں حتی کہ سب سے افضل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے مقرب صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی یہ مقام نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: (إِنَّ اللهَ تَعاليٰ قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيْلًا‘ كَمِا إِتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا)(صحيح مسلم، المساجد، باب النهي عن بناء المساجد علي القبور...الخ، حديث: 532) ”اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیل بنایا ہے جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا تھا۔“
(2) اس حدیث سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت ظاہر ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں محبت کے اعلیٰ ترین درجے کے قابل قرار دیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 93
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3655
´ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ہر خلیل کی «خلت»(دوستی) سے بری ہوں اور اگر میں کسی کو خلیل (دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو، یعنی ابوبکر رضی الله عنہ کو خلیل بناتا، اور تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3655]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: (خُلّت) دوستی کی ایک خاص حالت ہے جس کے معنی ہیں دوست کی دوستی کا دل میں رچ بس جانا، یہ ”محبت“ سے اعلی وارفع حالت ہے، اسی لیے آپﷺ یا ابراہیم علیہ السلام نے یہ مقام صرف اللہ تعالیٰ کو دیا ہے، رہی محبت کی بات تو آپﷺ کو سارے صحابہ، صدیقین وصالحین سے محبت ہے، اور صحابہ میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا مقام سب سے افضل ہے، حتی کہ ممکن ہوتا تو آپﷺ ابوبکرکو ”خلیل“ بنا لیتے، یہ بات ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایک بہت بڑی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3655
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:113
113- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں ہر ساتھی کے ساتھ سے بری الذمہ ہوں، اگر میں نے کسی کو خلیل بنانا ہوتا، تو میں ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن تمہارے آقا اللہ کے خلیل ہیں۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:113]
فائدہ: اس حدیث سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ خلیل کا معنی ہے: دلی دوست، خیر خواہ، ہمدرد۔ (الـقـامـوس الـوحـيـد: 471) مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہو جائے کہ کسی اور کے لیے اس میں جگہ نہ رہے خلیل بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے، جیسے علیم بمعنی عالم ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے، جیسے حبیب بمعنی محبوب ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام یقیناً اللہ تعالیٰ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی۔ (فتـح الـقدير)(تفسیر احسن البیان: 267) محبت کے اعلی درجے کو ”الـخـلة“ کہتے ہیں، جس میں دنیا و مافیھا سے محبت نہیں ہوتی، بلکہ تمام محبت اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے، اور یہی وصف عظیم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھا، اور یہ درجہ محنت و اجتہاد سے نہیں ملتا، کیونکہ یہ کسبی نہیں ہے، بلکہ اس عظیم درجے پر اللہ تعالیٰ اس کو خاص کرتا ہے، جسے چاہتا ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ دنیا میں کوئی بھی کسی کا خلیل نہیں ہے۔ یہ فقط ہمارے پیارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، بالفاظ دیگر انسانیت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا» (النساء: 125) ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے صرف دو کو اپناخلیل بنایا ہے: ① سیدنا ابراہیم علیہ السلام ② سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل پکڑے ہیں، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے جلیل القدر صحابی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپناخلیل بنانا چاہتے تھے، سبحان اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر اپنے یار غار کا تزکیہ بیان فرما رہے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 113