ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا: ”تم نماز میں کیا کہتے ہو؟“، اس نے کہا: میں تشہد پڑھتا ہوں، پھر اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! میں آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ اچھی طرح نہیں سمجھتا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بھی اسی کے گرد گنگناتے ہیں“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 910]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12363، ومصباح الزجاجة: 332)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 127 (792)، مسند احمد (3/474، 5/74) (صحیح) (حدیث مکرر ہے، ملاحظہ کریں: 3847)»
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور معاذ دھیمی آواز میں دعاء مانگا کرتے تھے۔ ۲؎: یعنی جنت کے سوال اور جہنم سے پناہ مانگنے جیسی دعائیں ہماری بھی ہوتی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (792) وانظر الحديث الآتي (3847) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 410
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث910
اردو حاشہ: فوائدو مسائل:
(1)(دندنة) اس کلام کو کہتے ہیں۔ جو سمجھ میں نہ آئے اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے آپ کی طرح لمبی لمبی دعایئں نہیں آتیں۔ میں تو مختصر سی دعا مانگتا ہوں۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے اس کی دعا کو پسند فرمایا کیونکہ یہ مختصر اور جامع ہے۔ اور سب سے اہم چیز بلکہ عبادات کا مقصود ہی یہ ہے۔ کہ آخرت میں اللہ کی رضا حاصل ہوجائے۔
(3)(حولھا ندندن) ”ہم بھی اس کے بارے میں گنگناتے ہیں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری لمبی چوڑی دعاؤں کا مقصو د بھی یہی ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کی رضا حاصل ہواور اس کے غضب سے محفوظ رہیں۔
(4) صوفیا میں جو مشہور ہے۔ کہ ہم صرف اللہ کی محبت کی وجہ سے عمل کرتے ہیں۔ جنت کی خواہش میں یا جہنم کے خوف سے نہیں کرتے۔ یہ سوچ درست نہیں۔ رسول اللہ ﷺ اللہ کے عظیم ترین اور مقرب ترین بندے ہیں۔ بندے پر اللہ کے حقوق اور اللہ سے محبت کےآداب سے جس قدر نبی کریم ﷺ واقف تھے۔ کوئی اوراس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے باوجود آپﷺ نے جنت کی دعا کی اور جہنم سے پناہ مانگی۔ کیونکہ جنت اللہ کی نعمتوں کا نام ہے۔ اور جنت میں اللہ کا دیدار ہوگا۔ اس لئے جنت سے اعراض اصل میں اللہ کے قرب سے اعراض ہے جو محبت الٰہی کے منافی ہے۔ اور جہنم سے بے خوفی اللہ ک غضب سے بے خوفی ہے۔ جو اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 910
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3847
´جامع دعاؤں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: ”تم نماز میں کیا کہتے ہو“؟ اس نے کہا: میں تشہد (التحیات) پڑھتا ہوں، پھر اللہ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور جہنم سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم میں آپ کی اور معاذ کی گنگناہٹ اچھی طرح سمجھ نہیں پاتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم بھی تقریباً ویسے ہی گنگناتے ہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3847]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے دنیا اور آخرت کی ضرورت کی کوئی بھی دعا مانگی جا سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے قرآن اور حدیث کی کوئی مناسب دعا پڑھی جا سکتی ہے۔
(2) استاد یا عالم کو اپنے شاگردوں اور مقتدیوں کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے تا کہ ان کی رہنمائی ان کے حالات اور ضرورت کے مطابق کی جا سکے۔
(3) اگر مقتدی کبھی بے تکلفی کا لہجہ اختیار کرے تو عالم کو برا نہیں منانا چاہیے۔
(4) جنت کا حصول اور جہنم سے بچاؤ عبادات کا اہم ترین مقصد ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہماری لمبی چوڑی دعاؤں کا مقصد بھی یہی ہے۔ مزید تفصیل کےلیے سنن ابن ماجہ ہی کی حدیث: 910 کے فوائد و مسائل ملاحظہ فرمائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3847