علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «يا علي لا تقع إقعاء الكلب»“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 895]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث أبي اسحاق عن الحارث تقدم فيحدیث (894)، وحدیث أبي موسیٰ عن الحارث، قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9028) (حسن)» (شواہد کے بنا ء پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں أبو مالک ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس طرح نماز میں بیٹھنا ہمیشہ مکروہ ہے، کیونکہ اس میں ستر کھلنے کا ڈر ہوتا ہے، اگر یہ ڈر نہ ہو تو نماز کے باہر مکروہ نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف أبو مالك النخعي: متروك (تقريب: 8337) والحارث الأعور: ضعيف وانظر الحديث السابق (894) وحديث مسلم (498) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 410
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث895
اردو حاشہ: فائدہ: ایڑیوں پر بیٹھنا ”اقعاء“ کا ترجمہ ہے۔ اقعاء کی دوصورتیں ہیں۔ ایک صورت ممنوع ہے ایک جائز، ممنوع صورت یہ ہے کہ پنڈلیاں کھڑی کرکے سرین زمین پر رکھ کربیٹھے اور ہاتھ زمین پر رکھے۔ یہ صورت کتے کے بیٹھنے کے مشابہ ہے۔ اس لئے صحیح احادیث سے اس ضعیف حدیث کی تایئد ہوتی ہے۔ کیونکہ صحیح احادیث میں کتوں اور درندوں کیطرح بیٹھنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ جائز صورت یہ ہے کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے وقت دونوں پاؤں کھڑے کرکے ایڑیوں پر بیٹھے جب کہ پنڈلیاں اور گھٹنے زمین پر ہوں۔ اسی کوحضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنت قرار دیا ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، باب جواز الإقعاء علی العقبین، حدیث: 536)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 895