عبداللہ بن اقرم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار اپنے والد کے ساتھ نمرہ کے میدان میں تھا کہ ہمارے پاس سے کچھ سوار گزرے، انہوں نے راستے کی ایک جانب اپنی سواریوں کو بٹھایا، مجھ سے میرے والد نے کہا: تم اپنے جانوروں میں رہو تاکہ میں ان لوگوں کے پاس جا کر ان سے پوچھوں (کہ کون لوگ ہیں)، وہ کہتے ہیں: میرے والد گئے، اور میں بھی قریب پہنچا تو دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، میں نماز میں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی، جب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے میں آپ کی دونوں بغلوں کی سفیدی کو دیکھتا تھا ۲؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: لوگ «عبیداللہ بن عبداللہ» کہتے ہیں، اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا کہ لوگ «عبداللہ بن عبیداللہ» کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 881]
وضاحت: ۱؎: نمرہ: عرفات سے متصل ایک جگہ کا نام ہے، جو عرفات سے پہلے پڑتا ہے۔ ۲؎: سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں بازوؤں کو پسلی سے اس قدر دور رکھتے کہ بغل صاف نظر آتی۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث881
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سفر کے دوران میں رستے میں ٹھرنا پڑے تو سڑک پر ٹھرنے کی بجائے نیچے اتر کر ایک طرف ٹھرنا چاہیے۔
(2) صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی نظر میں نماز باجماعت کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکریوں کو اپنی جگہ چھوڑ کرنماز باجماعت میں شرکت کی۔
(3) رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کرتے وقت بازؤں کو پہلوئوں سے ملا کر نہیں رکھا۔ اس لئے صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین کو نبی کریمﷺ کی بغلیں اچھی طرح نظر آ گیئں۔
(2) بغلوں کی سفیدی کےلئے (عفرۃ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد ایسا سفید رنگ ہے۔ جس میں سیاہی کی ہلکی سی آمیزش ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی جلد مبارک کا رنگ بالکل سفید تھا۔ اور بالوں کے اگتے ہوئے سرے سیاہ رنگ کے تھے۔ ان دونوں کے ملنے سے بغلوں کا رنگ سیاہی مائل سفید نظرآیا۔
(5) بغلوں کے بال اکھاڑنا مسنون ہے۔ جب بال اتنے چھوٹے ہوں کہ اکھاڑنا مشکل ہو اسوقت جس کے سفید رنگ سے مل کر مذکورہ بالا کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ بال بہت بڑھے ہوئے نہیں تھے۔ ورنہ عفرہ (خاکستری رنگ) کے بجائےسواد (سیاہی) کا لفظ بولا جاتا۔ صفائی کا تقاضا یہ ہے کہ جسم کے غیر ضروری بال مناسب حد سے زیادہ نہ بڑھنے دیئے جایئں بروقت صفائی کرلی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 881
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:952
952-عبید اللہ بن عبداللہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”نمرہ“ میں کھلی جگہ پر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:952]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سجدہ میں بازؤوں کو کھول کر رکھنا چاہیے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگر بغلیں ننگی بھی ہو جائیں تو نماز نہیں ٹوٹتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلیں مبارک سفید تھیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 951