الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
15. بَابُ : رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
15. باب: رکوع میں جاتے اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کا بیان۔
حدیث نمبر: 863
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ السَّاعِدِيُّ ، قَالَ: اجْتَمَعَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ ، وَأَبُو أُسَيْدٍ السَّاعِدِيُّ، وَسَهْلُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَذَكَرُوا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ:" أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ، فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ حِينَ كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، ثُمَّ قَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاسْتَوَى حَتَّى رَجَعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ".
عباس بن سہل ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو حمید ساعدی، ابواسید ساعدی، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے، اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا، ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «ألله أكبر» کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع کے لیے «ألله أكبر» کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر جب رکوع سے اٹھتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے)، اور سیدھے کھڑے رہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ واپس لوٹ آتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 863]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 117 (733، 734)، التشہد 181 (966، 967)، سنن الترمذی/الصلاة 78 (260)، 86 (270)، (تحفة الأشراف: 11892)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة 70 (1346) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے، اس طرح کل چار جگہیں ہوئیں جس میں آپ رفع یدین کرتے تھے، تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت، اور تیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاريكبر جعل يديه حذاء منكبيه وإذا ركع أمكن يديه من ركبتيه ثم هصر ظهره فإذا رفع رأسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى وإذا جلس في ا
   جامع الترمذيركع فوضع يديه على ركبتيه كأنه قابض عليهما ووتر يديه فنحاهما عن جنبيه
   جامع الترمذيالله أكبر وركع ثم اعتدل فلم يصوب رأسه ولم يقنع ووضع يديه على ركبتيه ثم قال سمع الله لمن حمده ورفع يديه واعتدل حتى يرجع كل عظم في موضعه معتدلا ثم أهوى إلى الأرض ساجدا ثم قال الله أكبر ثم جافى عضديه عن إبطيه وفتخ أصابع رجليه ثم ثنى رجله اليسرى وقعد
   سنن النسائى الصغرىإذا قام من السجدتين كبر ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه كما صنع حين افتتح الصلاة
   سنن النسائى الصغرىإذا ركع اعتدل فلم ينصب رأسه ولم يقنعه ووضع يديه على ركبتيه
   سنن ابن ماجهقام فكبر ورفع يديه ثم رفع حين كبر للركوع ثم قام فرفع يديه واستوى حتى رجع كل عظم إلى موضعه
   سنن ابن ماجهإذا قام إلى الصلاة كبر ثم رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ويقر كل عضو منه في موضعه ثم يقرأ ثم يكبر ويرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم يركع ويضع راحتيه على ركبتيه معتمدا لا يصب رأسه ولا يقنع معتدلا ثم يقول سمع الله لمن حمده ويرفع يديه حتى يحاذي بهما من
   سنن ابن ماجهإذا قام في الصلاة اعتدل قائما ورفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم قال الله أكبر وإذا أراد أن يركع رفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه فإذا قال سمع الله لمن حمده رفع يديه فاعتدل فإذا قام من الثنتين كبر ورفع يديه
   سنن ابن ماجهإذا قام إلى الصلاة استقبل القبلة ورفع يديه وقال الله أكبر
   سنن أبي داودفإذا ركع امكن كفيه من ركبتيه وفرج بين اصابعه
   سنن أبي داودفإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما، واستقبل باطراف اصابعه القبلة
   سنن أبي داودثم ركع الركعتين الاخريين، ولم يذكر التورك في التشهد
   سنن أبي داودثم ركع فوضع يديه على ركبتيه كانه قابض عليهما
   سنن أبي داودوإذا سجد فرج بين فخذيه غير حامل بطنه على شيء من فخذيه
   سنن أبي داودفلما سجد وقعتا ركبتاه إلى الارض قبل ان تقع كفاه
   سنن أبي داودإذا قام إلى الصلاة يرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه ثم يكبر حتى يقر كل عظم في موضعه
   بلوغ المرامإذا كبر جعل يديه حذو منكبيه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 863 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 863  
فقہ الحدیث
امام محمد بن یحییٰ الذھلی کا اعلان
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی مجلس صحابہ میں بیان کردہ حدیث «فليح بن سليمان: حدثني العباس بن سهل الساعدي» کی سند سے بھی مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه: 863 و سنده حسن، فليح بن سليمان من رجال الصحيحين و وثقة الجمهور]
اس حدیث میں شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد تینوں مقامات پر رفع یدین کا اثبات ہے۔
اس حدیث کے بارے میں امام بخاری رحمه الله اور بے شمار محدثین کے استاد امام محمد بن یحییٰ (الذهلي، م 258 ھ) فرماتے ہیں کہ:
«من سمع هذا الحديث، ثم لم يرفع يديه۔ يعني إذا ركع و إذا رفع رأسه من الركوع۔ فصلاته ناقصة»
جو شخص یہ حدیث سن لے پھر بھی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین نہ کرے تو اس کی نماز ناقص (یعنی باطل) ہے۔ [صحيح ابن خزيمه ج 1 ص 298 ح 589 و سنده صحيح]
↰ یاد رہے کہ امام ذھلی کا یہ قول کسی حدیث یا آثار سلف صالحین کے خلاف نہیں ہے۔
 حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا یہ مکمل مضمون طریقہ نماز سے متعلق مشہور حدیثِ ابو حمید الساعدی، سند کی تحقیق اور شبہات کا ازالہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث/صفحہ نمبر: 27   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث863  
اردو حاشہ:
فائدہ:
رکوع سے اٹھ کر بالکل سیدھا کھڑا ہونا ضروری ہے۔
پوری طرح کھڑا ہوئے بغیر جلدی سے سجدہ میں چلے جانا خلاف سنت ہے۔
ہر ہڈی کے اپنی جگہ پہنچ جانے کا یہی مطلب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 863   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 828  
´نماز میں تورک `
۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔۔۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
فوائد و مسائل:
اتنا واضح رہے کہ جو احادیث حضرات حنفیہ ترک التورک کے متعلق پیش کرتے ہیں وہ سب کی سب مبہم ہیں اور مفصل نہیں ہیں اور یہ حدیث بالکل مفصل ہے۔ اس لئے قابل عمل بھی یہی رہی۔

چنانچہ مولانا عبدالحیی لکھنوی تعلیق الممجد میں مفصل اور مبہم دونوں دلیلیں لانے کے بعد بطور فیصلہ اور محاکمہ یوں فرماتے ہیں:
«والانصاف انه لا يوجد حديث يدل صريحاً على استنان الجلوس على الرجل اليسرى فى القعدة الأخيرة» [تعليق الممجد:113]
انصاف کی بات یہ ہے کہ کوئی حدیث شریف ایسی نہیں پائی جاتی جس سے صراحتہ آخری قعدہ میں بائیں پاؤں پر بیٹھنا (جیسے حنفیہ کہتے ہیں) ثابت ہو اور ابوسعید والی حدیث شریف (جو کہ اوپر ذکر ہوئی) بلکل مفصل ہے تو مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے۔ یعنی ابوحمید والی حدیث پر عمل کیا جائے۔
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 41   

  ابوصهيب مولانا محمد داود ارشد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 733  
´ تشہد میں تورک`
«. . . ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ يَعْنِي مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَى كَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَصُدُورِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، ثُمَّ كَبَّرَ فَجَلَسَ فَتَوَرَّكَ وَنَصَبَ قَدَمَهُ الْأُخْرَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ يَتَوَرَّكْ . . .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد» کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدے میں گئے اور سجدے کی حالت میں اپنی دونوں ہتھیلیوں، گھٹنوں اور اپنے دونوں قدموں کے اگلے حصہ پر جمے رہے، پھر «الله اكبر» کہہ کر بیٹھے تو تورک کیا (یعنی سرین پر بیٹھے) اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدہ کیا، پھر «الله اكبر» کہا اور (سجدہ سے اٹھ کر) کھڑے ہو گئے، اور سرین پر نہیں بیٹھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 733]
تبصرہ:
اولاً: اس کی سند میں عیسی بن عبداللہ راوی ہے، اس کے متعلق:
امام علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ مجہول ہے۔ [تهذيب: ص 218 ج8]
اسی وجہ سے علامہ البانی نے اس پر ضعیف کا حکم لگایا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد: ص70]
ثانیاً: اسی روایت سیدنا ابوحمید ساعدی میں جلسہ استراحت کا ذکر ہے، اور یہ مسلمہ اصول کی ثبوت نفی پر مقدم ہوتا ہے۔
   حديث اور اهل تقليد ، حصہ اول، حدیث/صفحہ نمبر: 18   

  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 304  
´رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین`
«. . . فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا . . .»
. . . پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر «الله أكبر» کہتے اور رکوع کرتے اور بالکل سیدھے ہو جاتے، نہ اپنا سر بالکل نیچے جھکاتے اور نہ اوپر ہی اٹھائے رکھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر «سمع الله لمن حمده» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ جسم کی ہر ایک ہڈی سیدھی ہو کر اپنی جگہ پر لوٹ آتی . . . [سنن ترمذي/كتاب الصلاة: 304]
فقہ الحدیث
◈ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح کہا ہے۔
◈ امام ابن خزیمہ [587] امام ابن الجارود [192]، امام ابن حبان [1865]، نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
◈ حافظ خطابی [معالم السنن: 194/1] نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ [خلاصة الا حكام: 353]
◈ حافظ ابن قّیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى حميد هذا حديث صحيح متلقّي بالقبول، لا علّة له، وقد أعله قوم بما برأه الله أئمة الحديث منه، ونحن نذكر ما علّلوا به، ثمّ نبيّن فساد تعليلهم وبطلانه بعون الله . . . .»
یہ حدیث صحیح ہے، اسے امت نے صحت و عمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے، اس میں کوئی علت نہیں، ہاں! اسے ایک قوم (احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کر دیا ہے، ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسد و باطل ہونا بیان کریں گے۔ [تهذيب السنن لا بن القيم: 416/2]
◈ امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابوعبداللہ النیسابوری رحمہ اللہ (258ھ) فرماتے ہیں:
جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے۔ [صحيح ابن خزيمة: 298/1، وسنده صحيح] 9
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 11، حدیث/صفحہ نمبر: 12   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 730  
فقہ الحدیث
ایک اھم نکتہ
صحیح سند سے ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [جزء رفع الیدین للبخاری: 22 و سندہ صحیح]
اور یہ بھی صحیح ثابت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع یدین کرتے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه ج 1ص 344، 345 ح 694، 695 وسنده صحيح، وقال الحافظ ابن حجر فى كتابه موافقة الخبر الخبر 409، 410/1 هذا حديث صحيح]
↰ ابن جریح نے سماع کی تصریح کر دی ہے اور یحییٰ بن ایوب الغافقی پر جرح مردود ہے، وہ جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق راوی ہیں اور عثمان بن الحکم نے ان کی متابعت کر دی ہے۔ اس روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ «ولا يفعله حين يرفع رأسه من السجود» یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نماز کا مفصل ذکر موجود ہے مگر اس میں شروع نماز، رکوع سے پہلے، رکوع کے بعد اور رکعتیں (دو رکعتوں) کے بعد کسی رفع یدین کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اس حدیث کے آخر میں لکھا ہوا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نماز کے بارے میں فرماتے: «إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا» آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح بخاري مع فتح الباري ج 2 ص 290 ح 803]
↰ اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وہی نماز پڑھتے تھے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نما ز تھی۔ اب چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا و مرفوعا دونوں طرح شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین ثابت ہے لہذا اس سے خودبخود ثابت ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک رفع یدین کرتے تھے۔ جس شخص کو اس سے اختلاف ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے باسند صحیح یا حسن ترک رفع یدین کا ثبوت پیش کرے۔ اس استدلال کے بعد «التحقیق الراسخ فی أن أحادیث رفع الیدین لیس لھانا سخ» پڑھنے کا اتفاق ہوا تو بڑی خوشی ہوئی کہ ہمارے استادوں کے استاد (شیخ الشیوخ) حافظ محمد گوندلوی رحمه الله نے بھی یہی استدلال کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رفع یدین ثابت کیا ہے۔ دیکھئے التحقیق الراسخ [ص 90، 91 نویں حدیث] «والحمدلله»
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سجدوں میں بھی رفع یدین ثابت ہے۔ [بحواله سنن ابن ماجه ص 62 ح 860 ومسند احمد 132/2 ح 6163]
↰ تو عرض ہے کہ یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے۔
⟐ اسماعیل بن عیاش کی غیر شامیین و حجازیین سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [باب ماجاء فی الجنب والحائض ح 131] وتہذیب الکمال [214/2۔ 217]
⟐ اسماعیل بن عیاش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسین 3/68، المرتبۃ الثالثہ] اور یہ روایت عن سے ہے۔
↰ اس ضعیف سند سے استدلال مردود ہے۔ شیخ البانی رحمه الله کو بڑا وہم ہوا ہے، انہوں نے بغیر کسی دلیل کے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «انا لله وانا اليه راجعون»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث/صفحہ نمبر: 30   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 733  
´ حدیث ابو حمید الساعدی، سند کی تحقیق`
«. . . ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ يَعْنِي مِنَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ فَسَجَدَ فَانْتَصَبَ عَلَى كَفَّيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَصُدُورِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ، ثُمَّ كَبَّرَ فَجَلَسَ فَتَوَرَّكَ وَنَصَبَ قَدَمَهُ الْأُخْرَى، ثُمَّ كَبَّرَ فَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَقَامَ وَلَمْ يَتَوَرَّكْ . . .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد» کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدے میں گئے اور سجدے کی حالت میں اپنی دونوں ہتھیلیوں، گھٹنوں اور اپنے دونوں قدموں کے اگلے حصہ پر جمے رہے، پھر «الله اكبر» کہہ کر بیٹھے تو تورک کیا (یعنی سرین پر بیٹھے) اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدہ کیا، پھر «الله اكبر» کہا اور (سجدہ سے اٹھ کر) کھڑے ہو گئے، اور سرین پر نہیں بیٹھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 733]
فقہ الحدیث
نام نھاد اضطراب کا دعویٰ
بعض الناس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ یہ حدیث مضطرب ہے۔
↰ ان لوگوں کی بیان کردہ اضطرابی اسانید اور ان پر تبصرہ درج ذیل ہے۔
① محمد بن عمرو بن عطاء عن ابی حمید رضی اللہ عنہ [صحيح البخاري: 828 و سنن ابي داؤد: 730]
② محمد بن عمرو: أخبرنی مالک عن عیاش أو عباس بن سھل [السنن الكبري للبيهقي 101/2]
↰ اس کا راوی عیسی بن عبداللہ بن مالک مجہول الحال ہے، اسے سوائے ابن حبان کے کسی نے ثقہ نہیں کہا، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے، محمد بن عمرو بن عطاء سے ثابت ہی نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمه الله نے بھی اس روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے۔ [سنن ابي داؤد ص 118 ح 733]
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 18، حدیث/صفحہ نمبر: 26   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود 733  
سیدنا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی طرف منسو ب ایک روایت میں آیا ہے:
«ثم كبر فسجد، ثم كبر فقام ولم يتورك»
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور سجدہ کیا، پھر سجدہ سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہو گئے اور تورک نہیں کیا۔ [سنن ابي داود: 733]
اس روایت کی سند عیسیٰ بن عبداللہ بن مالک (مجہول الحال) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ظہور احمد نے تحریف کر کے اس روایت میں «ولم يتورك» اور تورک نہیں کیا۔
کا ترجمہ: بیٹھے نہیں کر دیا ہے۔ دیکھئے: [چهل حديث ص80]
یہ بہت بڑی خیانت ہے۔
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، صحیح بخاری 828  
تشہد اول میں تورک
تشہد (اول میں یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے۔ مثلاًً دیکھئے: [صحيح مسلم 1045]
اس کو قعدۂ اولیٰ کے ساتھ خاص کرنے کی دلیل وہ صحیح حدیث ہے، جس میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رکعت کے تشہد میں تورک کرتے تھے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 828]
مرد ہو یا عورت سب کے لئے یہی طریقہ ہے کہ تشہد اول میں تورک نہ کریں اور آخری تشہد میں تورک کریں۔
کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ عورتیں پہلے تشہد میں تورک کریں گی۔ جامع المسانید للخوارزمی [400/1] اور مسند الحصکفی (!!) کی جس روایت میں آیا ہے:
عورتیں چار زانو بیٹھا کرتی تھیں، پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ سرین کے بل بیٹھیں۔ مثلاًً دیکھئے: [چهل حديث ص83]
اس روایت کی سند کئی وجہ سے موضوع ہے:
اول: اس کا پہلا راوی ابومحمد عبداللہ بن محمد بن یعقو ب البخاری الحارثی کذاب ہے۔
دیکھئے: میزان الاعتدال [ج1 ص496] اور کتاب ال قرأت للبیہقی [ص178 ح388، دوسرانسخه ص154]
دوم: اس کے باقی راوی مثلاًً قبیصہ الطبری اور زر بن نجیح وغیرہما مجہول تھے۔
۔۔۔ اصل مضمون دیکھیں۔۔۔
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2 ص77
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 77   

  الشيخ مفتي كفايت الله حفظ الله رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 828  
´رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال`
جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 828]
فوائد و مسائل:
تارکین رفع الیدین صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں رکوع والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل ہے:
«...فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ: أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١) رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، (٢)وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، (٣)فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلاَ قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اليُسْرَى، وَنَصَبَ اليُمْنَى، (٤)وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ» [صحيح البخاري:1 /165 رقم828]
ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز یاد ہے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ SR (١) ER جب SR آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی ER، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے ، SR (٢) ER اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، SR (٣) ER جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہو گئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کر لی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر لیا، SR (٤) ER جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کر لیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے۔
اس حدیث سے بھی رکوع والے رفع الیدین کے ترک پر استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ اس حدیث میں نماز کے تمام طریقوں کا ذکرنہیں ہے تو کیا نماز کی جن جن چیزوں کا ذکر اس حدیث میں نہیں ہے انہیں متروک مان لیاجائے؟
صرف ایک چیز کی وضاحت کرتا ہوں بخاری کی اس حدیث میں جس طرح صرف تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا ذکر ہے ٹھیک اسی طرح سے اس حدیث میں صرف تکبیرتحریمہ والی تکبیرہی کا ذکر بھی ہے۔
میں نے حدیث کے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبر ڈالے ہیں ان چاروں میں سے صرف پہلے مقام تکبیر کا ذکر ہے اوربقیہ مقامات پر جس طرح رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے اسی طرح تکبیر کا یا اس کے قائم مقام تسمیع کا بھی ذکر نہیں ہے۔
تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ بقیہ رفع الیدین کے ساتھ بقیہ تکبیرات بھی متروک ہو گئی ہیں؟

یاد رہے کہ بخاری کی یہی حدیث ابوداؤد میں موجود ہے اور اس میں دیگر رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اور دیگر تکبیرات کا بھی ذکر ہے ملاحظہ ہو:
«...قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ SR (١) ER إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، SR (٢) ER ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، SR (٣) ER ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، SR (٤) ER ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ "، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،» [سنن أبى داود:1 /194 رقم 730 واسناده صحيح]
ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ واللہ تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم SR (١) ER جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور SR تکبیر کہتے ER یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے SR (٢) ER پھر SR (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے ER دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ SR (٣) ER پھر SR سر اٹھاتے اور «سَمِعَ الله لِمَن حَمِدَه» کہتے۔ ER پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے SR (٤) ER پھر SR جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ER اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔

اس حدیث میں بھی ہم نے متن کے اندر چار مقامات پر بالترتیب نمبر ڈالے ہیں ان چاروں میں پہلے مقام کی طرح رفع الیدین کا بھی ذکر ہے اور تکبیر یا تسمیع کا بھی ذکرہے، تکبیر کے ذکر والے الفاظ کو ہم نے لال رنگ سے ملون و مخطوط کیا ہے اوررفع الیدین کے ذکر والے الفاظ کو نیلے رنگ سے ملون کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ اس صحیح حدیث میں بھی تکبیر تحریمہ کے علاوہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل نہیں ہے، اور اگر اس جیسی احادیث میں واقعی ترک کی دلیل ہے تو لیجئے ہم اسی جیسی ایک ایسی صحیح حدیث پیش کرتے ہیں جس میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی دلیل بھی موجود ہے ملاحظہ ہو:
صحیح بخاری میں ہے:
«... أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، " كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاَةٍ مِنَ المَكْتُوبَةِ، وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، SR فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ER، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِي الِاثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَةِ "، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ SR إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا ER» [صحيح البخاري:1 /159رقم803]
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر نماز میں تکبیر کہتے تھے فرض ہو یا کوئی اور رمضان میں (بھی) اور غیر رمضان میں (بھی)، SR پس جب کھڑے ہوتے تھے تکبیر کہتے ER، پھر جب رکوع کرتے تھے تکبیر کہتے، پھر سجدہ کرنے سے پہلے «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے اس کے بعد «رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہتے، اس کے بعد جب سجدہ کرنے کے لئے جھکتے، اللہ اکبر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے۔ پھر جب (دوسرا) سجدہ کرتے تکبیر کہتے، پھر جب سجدوں سے اپنا سر اٹھاتے، تکبیر کہتے، پھر جب دو رکعتوں میں بیٹھ کر اٹھتے، تکبیر کہتے، (خلاصہ یہ کہ) اپنی ہر رکعت میں اسی طرح کر کے نماز سے فارغ ہو جاتے، اس کے بعد جب نماز ختم کر چکتے تو کہتے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے SR بلاشبہ میں تم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں، بلا شبہ آپ کی نماز اس وقت تک بالکل ایسی ہی تھی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو چھوڑا۔ ER
غور فرمائیں اس صحیح حدیث میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا بھی ذکرنہیں ہے تو کیا آپ کے اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر صحیح حدیث ہے یا نہیں؟
لطف تو یہ ہے کہ آپ کے اصول کے مطابق تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر دلالت کرنے والی اس حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل تاحیات تھا اس حدیث کے اخیر میں دیکھیں آپ کو یہ الفاظ نظر آئیں گے:
«إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا»
کیا خیال ہے تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے ترک پر آپ کے اصول کے مطابق یہ کیسی زبردست دلیل ہے جس میں تاحیات اور آخری وقت کی بھی صراحت ہے۔
سنن ابواؤد کے جس راوی پر معترض نے جروح نقل کئے ہیں وہ معمولی جروح ہیں ان سے راوی ضعیف ثابت نہیں ہوتا جبکہ دیگر بہت سارے محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے اس بابت تفصیل کسی اوروقت پیش کر دی جائے گی۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 27334   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 731  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
محمد بن عمرو (بن عطاء) عامری کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک مجلس میں تھا، ان لوگوں نے آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا، تو ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا ...، پھر راوی نے اسی حدیث کا بعض حصہ ذکر کیا، اور کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر جماتے اور اپنی انگلیوں کے درمیان کشادگی رکھتے، پھر نہ اپنی پیٹھ کو خم کرتے، نہ سر کو اونچا کرتے، نہ منہ کو دائیں یا بائیں جانب موڑتے (بلکہ سیدھا قبلہ کی جانب رکھتے)، پھر جب دو رکعت کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور داہنا پاؤں کھڑا رکھتے، پھر جب آپ چوتھی رکعت میں ہوتے، تو اپنی بائیں سرین زمین پر لگاتے اور دونوں پاؤں ایک جانب (یعنی داہنی جانب) نکالتے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 731]
731۔ اردو حاشیہ:
➊ شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جملہ «ولا صافع بخدّه» رخسار کو ادھر ادھر نہ موڑا ہوتا۔ ضعیف ہے۔
➋ رکوع میں گھٹنے پر ہاتھ رکھنا کافی نہیں بلکہ انگلیاں پھیلا کر گھٹنے کو پکڑنا مسنون ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 731   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 732  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
اس سند سے بھی محمد بن عمرو بن عطاء سے اسی طرح مروی ہے، اس میں ہے جب آپ سجدہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے، نہ ہی انہیں بچھاتے اور نہ ہی انہیں سمیٹے رکھتے، اور اپنی انگلیوں کے کناروں سے قبلہ کا استقبال کرتے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 732]
732۔ اردو حاشیہ:
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ پاؤں کی نگلیوں کا رخ قبلے کی طرف ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث: 828]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 732   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 733  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
عباس بن سہل ساعدی یا عیاش بن سہل ساعدی کہتے ہیں کہ وہ ایک مجلس میں تھے، جس میں ان کے والد بھی تھے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے، مجلس میں ابوہریرہ، ابو حمید ساعدی، اور ابواسید رضی اللہ عنہم بھی تھے، پھر انہوں نے یہی حدیث کچھ کمی و زیادتی کے ساتھ روایت کی، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور «سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد» کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدے میں گئے اور سجدے کی حالت میں اپنی دونوں ہتھیلیوں، گھٹنوں اور اپنے دونوں قدموں کے اگلے حصہ پر جمے رہے، پھر «الله اكبر» کہہ کر بیٹھے تو تورک کیا (یعنی سرین پر بیٹھے) اور اپنے دوسرے قدم کو کھڑا رکھا، پھر «الله اكبر» کہا اور سجدہ کیا، پھر «الله اكبر» کہا اور (سجدہ سے اٹھ کر) کھڑے ہو گئے، اور سرین پر نہیں بیٹھے۔‏‏‏‏ پھر راوی عباس رضی اللہ عنہ نے (آخر تک) حدیث بیان کی اور کہا: پھر آپ دونوں رکعتوں کے بعد بیٹھے، یہاں تک کہ جب (تیسری رکعت کے لیے) اٹھنے کا قصد کیا تو «الله اكبر» کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے، پھر بعد والی دونوں رکعتیں ادا کیں۔ اور راوی (عیسیٰ بن عبداللہ) نے تشہد میں تورک کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 733]
733۔ اردو حاشیہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے عبدالحمید بن جعفر کی سابقہ روایت [730] کو راجح کہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 733   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 734  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
عباس بن سہل بیان کرتے ہیں کہ ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہم اکٹھے ہوئے اور آپس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کیا تو ابوحمید نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، پھر انہوں نے اس کے بعض حصے کا ذکر کیا اور کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے پر رکھا گویا آپ ان کو پکڑے ہوئے ہیں اور اپنے دونوں ہاتھوں کو کمان کی تانت کی طرح کیا اور انہیں اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اپنی ناک اور پیشانی زمین پر جمائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی دونوں بغلوں سے جدا رکھا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل رکھیں، پھر اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی (آپ نے ایسے ہی کیا) یہاں تک کہ دوسری رکعت کے دونوں سجدوں سے فارغ ہو گئے پھر بیٹھے تو اپنا بایاں پیر بچھا لیا اور داہنے پیر کی انگلیاں قبلہ رخ کیں اور دائیں گھٹنے پر داہنی اور بائیں گھٹنے پر بائیں ہتھیلی رکھی اور اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عتبہ بن ابوحکیم نے عبداللہ بن عیسٰی سے انہوں نے عباس بن سہل سے روایت کیا ہے، اور اس میں تورک کا ذکر نہیں کیا ہے، اور اسے فلیح کی حدیث کی طرح (بغیر تورک کے) ذکر کیا ہے، اور حسن بن حر نے فلیح بن سلیمان اور عتبہ کی حدیث میں مذکور بیٹھک کی طرح ذکر کیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 734]
734۔ اردو حاشیہ:
رکوع میں گھٹنوں کو انگلیاں کھول کر پکڑنا اور بازؤوں کو رکوع اور سجدہ میں پہلوؤں سے دور رکھنا چاہیے۔ سجدوں میں بیٹھتے ہوئے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 734   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 736  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی ہے اس میں ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو آپ کے دونوں گھٹنے آپ کی ہتھیلیوں سے پہلے زمین پر پڑے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے گئے تو اپنی پیشانی کو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا، اور اپنی دونوں بغلوں سے علیحدہ رکھا۔‏‏‏‏ حجاج کہتے ہیں: ہمام نے کہا: مجھ سے شقیق نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: مجھ سے عاصم بن کلیب نے بیان کیا، عاصم نے اپنے والد کلیب سے، کلیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی حدیث میں، اور غالب گمان یہی ہے کہ محمد بن حجادہ کی حدیث میں یوں ہے: جب آپ سجدے سے اٹھے تو اپنے دونوں گھٹنوں پر اٹھے اور اپنی ران پر ٹیک لگایا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 736]
736۔ اردو حاشیہ:
زمین سے اٹھنے کی کیفیت کا بیان آگے حدیث: [738، 739] میں آ رہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 736   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1040  
´رکوع میں پیٹھ اور سر کے برابر ہونے کا بیان۔`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو پیٹھ اور سر کو برابر رکھتے، نہ تو سر کو بہت اونچا رکھتے اور نہ اسے جھکا کر رکھتے، اور اپنے ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پہ رکھتے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1040]
1040۔ اردو حاشیہ: فائدہ: دیکھیے حدیث نمبر 1029۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1040   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1182  
´آخری دونوں رکعتوں کے لیے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کا بیان۔`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دونوں رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے، اور رفع یدین کرتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں کے برابر لے جاتے، جیسے وہ نماز شروع کرتے وقت کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1182]
1182۔ اردو حاشیہ: یہ رفع الیدین بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے اگرچہ بعض احادیث میں اس کا ذکر نہیں ہے لیکن ہر بات کا ہر حدیث میں ذکر ہونا ضروری نہیں۔ اگر کسی بھی صحیح حدیث میں کسی بات کا ذکر ہو اور وہ واضح روایات کے منافی نہ ہو تو اس پر عمل واجب ہوتا ہے، لہٰذا یہ رفع الیدین بھی سنت ہے، اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں۔ اگلی حدیث میں بھی اس رفع الیدین کا اثبات ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، حدیث: 877 کے فوائد و مسائل)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1182   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 211  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیر (اولیٰ) کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے دیکھا ہے اور جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور اپنی پشت مبارک جھکا لیتے پھر جب اپنا سر رکوع سے اوپر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوتے کہ ہر جوڑ اپنی اپنی جگہ پر پہنچ جاتا (اس کے بعد) پھر جب سجدہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ (زمین) پر اس طرح رکھتے کہ نہ زیادہ سمٹے ہوتے اور نہ زمین پر بچھے ہوئے ہوتے۔ حالت سجدہ میں دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوتیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر قعدہ کرتے تو بایاں پاؤں زمین پر بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری قعدہ کرتے تو بایاں پاؤں (دائیں ران کے نیچے سے) آگے بڑھا دیتے اور دایاں کھڑا رکھتے اور سرین پر بیٹھ جاتے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 211]
211لغوی تشریح:
«حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ» «اَلْحَذْوَ» کی خا پر فتحہ اور ذال ساکن ہے۔ مقابل، برابر۔ دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے مقابل (برابر) اٹھاتے۔ «اَلْمَنْكِبْ» میم پر فتحہ اور نون ساکن اورکاف کے نیچے کسرہ ہے۔ کندھے اور بازو کی ہڈی کے ملنے کی جگہ۔
«أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ» «رُكْبَتَيْة» پنڈلی اور ران کی ہڈی کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ «أَمْكَانَ» بمعنی «تمكين» ہے، مضبوطی سے پکڑنا۔ یعنی دونوں ہاتھوں سے دونوں گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔
«هَصَرَ ظَهْرِهِ» اپنی کمر جھکائی‘ پشت نیچے کی۔
«فَقَارٍ» فا پر فتحہ اور قاف مخفف ہے۔ پشت کی وہ ہڈی جو اوپر سے نیچے والے جوڑوں کو باہم ملاتی ہے۔
«غَيْرَ مُفْتَرِشٍ» نہ بچھانے والے اپنے بازوؤں کو۔
«وَلَا قَابِضِهِمَا» ‏‏‏‏ اور نہ اپنے ہاتھوں کو اپنے پہلوؤں کی طرف سکیڑنے، سمیٹنے والے۔
«قَدَّمَ رِجْلَهُ اَلْيُسْرَى» «قَدَّمَ» «تقديم» سے ماخوذ ہے جس کے معنی آگے بڑھانا، دراز کرنا۔ یعنی دائیں ران کے نیچے سے بڑھا کر دوسری جانب نکالنا۔
«نَصَبَ» کھڑا رکھنا، قائم کرنا، یعنی آپ نے دایاں پاؤں کھڑا رکھا۔
«وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ» اور بائیں چوتڑ پر بیٹھ گئے۔ اس حالت کو «تورك» کہتے ہیں۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارکان نماز کو کس طرح ادا فرماتے تھے۔ لہٰذا اہل ایمان کو اسی طرح نماز ادا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔
➋ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ [صحيح البخاري: كتاب الاذان: باب الاذان للمسافر إذا كانوا جماعة، والإقامة، وكذلك بعرفة وجمع، 631]
ہر مسلمان کو اپنی پوری کوشش کرنی چاہئے کہ نماز اسی طرح آرام، سکون اور اطمینان سے ٹھر ٹھہر کر ادا کرے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً تعلیم دی ہے۔ جلدی جلدی ارکان نماز ادا کر کے نماز کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔ تنگ وقت میں جلدی جلدی نماز پڑھنے والے کو کوے ٹھونگوں سے تشبیہ دے کر منافق کی نماز قرار دیا گیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 862]
➌ نمازیوں کو بہت فکر کرنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نمازیں بھی پڑھیں اور حاصل بھی کچھ نہ ہو۔ ایسی نمازوں کا کیا فائدہ ہے۔

راوی حدیث:
ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ، ابوحمید تصغیر کے ساتھ، ان کا نام عمرو تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام منذر بن سعد بن منذر تھا۔ بعض نے مالک انصاری خزرجی مدنی بھی نام بتایا ہے۔ خزرج کے باپ ساعدہ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ساعدی کہلائے۔ احد اور اس کے بعد کے غزوات میں شریک ہوئے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور امارت کے آخر میں یا یزید کے شروع دور 61 ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 211   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث803  
´نماز شروع کرنے کا بیان۔`
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ رخ ہوتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر «الله أكبر» کہتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 803]
اردو حاشہ:
(1)
نما ز میں قبلے کی طرف منہ کرنا فرض ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ﴾ (البقرۃ: 144)
 (اے نبیﷺ)
اپنا چہرہ مسجد حرام (احترام والی مسجد)
کی طرف پھیر لیجئے۔
اور (اے مومنو!)
تم جہاں بھی ہو۔ (نماز میں)
اپنے چہرے اس کی طرف کیا کرو۔

(2)
مسجد حرام سے مراد وہ مسجد ہے۔
جس میں خانہ کعبہ واقع ہے۔
اس مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے۔
کعبہ شریف کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔
کیونکہ اصل قبلہ وہی ہے۔
رسول اللہﷺ نے کعبہ شریف کے قریب دو رکعت نماز ادا کی۔
پھر فرمایا۔
یہ قبلہ ہے۔ (صحیح البخاری، الصلاۃ، باب قوله تعالی واتخذو من مقام إبراهيم مصليٰ، حدیث: 398)
 بیت اللہ سے دور نماز پڑھتے ہوئے صرف اسی سمت کا اندازہ کرلینا کافی ہے۔
کیونکہ انسان اپنی طاقت کے مطابق ہی حکم کی تعمیل کا مکلف ہے۔
ارشاد ربانی ہے۔
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾  (البقرة: 286)
 اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ زمہ داری عائد نہیں فرماتا۔

(3)
نفلی نماز سواری پر ادا کرتے ہوئے اگر چہرہ کسی دوسری طرف بھی ہوجائے۔
تو کوئی حرج نہیں۔
نماز درست ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ سواری پر نفل نماز ادا کرلیتے تھے۔
خواہ آپ کا چہرہ مبارک کسی طرف ہوتا۔
اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے۔
البتہ فرض نماز سواری پرادا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الوتر، باب الوتر فی السفر، حدیث: 1000)
 وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز الصلاة النافلة علی الدابة فی السفر حیث توجھت، حدیث: 700)
 تاہم آغاز میں سواری کا رخ قبلہ کی طرف کر لیا جائے۔
جیسا کہ ابو داؤد کی روایت میں نبی کریمﷺ کے اس طرح کرنے کی صراحت ہے۔ (سنن أبی داؤد، صلاۃ السفر، حدیث: 1225)
نماز شروع کرنے کے بعد سواری کا رخ پھر جدھر بھی ہوجائے کوئی حرج نہیں۔

(4)
نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے اُٹھ کر بھی رفع الیدین کرنا سنت ہے۔
جیسے کہ اگلے باب میں بیان ہوگا۔
دیکھئے: (حدیث 858 و859)
 
(5)
کانوں تک ہاتھ اُٹھانا بھی درست ہے۔
اور کندھوں تک بھی (حوالہ مذکورہ بالا)
نماز شروع کرتے وقت اللَّهُ أَكْبَرُ کہنا تکبیر تحریمہ کہلاتا ہے۔
کیونکہ اس سے نمازی پرکچھ پابندیاں لگ جاتی ہیں۔
اور تحریم کا مطلب پابندی لگانا ہوتا ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔ (مفتاح الصلاة الطهور وتحريمها التكبير وتحليلها التسليم)
پاکیزگی (وضو)
نماز کی چابی ہے۔
اور اس کی پابندیاں عائد کرنے والی چیز تکبیر ہے۔
اور پابندی ختم کرنے والی چیز سلام ہے۔ (جامع الترمذي، الطہارۃ، باب ما جاء أن مفتاح الصلاۃ الطھور، حدیث: 3)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 803   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث862  
´رکوع میں جاتے اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین کا بیان۔`
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے ابو حمید ساعدی کو کہتے سنا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس اصحاب کے بیچ میں تھے جن میں سے ایک ابوقتادہ بن ربعی تھے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو سب سے زیادہ جانتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے، اور اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر «ألله أكبر» کہتے، اور جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تو اپن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 862]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس حدیث سے دیگر مقامات کے علاوہ دو رکعت پڑھ کر التحیات سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کا ثبوت ملتا ہے مزید برآں اس پر دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی گواہی ہے کیونکہ کسی نے انکارنہیں کیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 862   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1061  
´نماز کو مکمل طور پر ادا کرنے کا بیان۔`
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کی موجودگی میں ۱؎، جن میں ایک ابوقتادہ رضی اللہ عنہ تھے، ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: کیسے؟ جب کہ اللہ کی قسم آپ نے ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی ہے اور نہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے؟، ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ... ضرور لیکن میں آپ لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: پھر نبی اکر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1061]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ سے دین کے مسائل سیکھ کر زبانی بھی یاد رکھے اور عملی طور پر بھی، اس طرح ان کےشاگردوں نے بھی حتیٰ کہ وہ مسائل کسی کمی بیشی کے بغیر ہم تک پہنچ گئے۔

(2)
علمی مذاکرہ مسائل کوسمجھنے اور یاد رکھنے کےلئے ایک بہترین طریقہ ہے۔

(3)
آخری تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ سجدوں کے درمیان بیٹھنے کے طریقے سے مختلف ہے اور وہ ہے تورک کا طریقہ، جس کی وضاحت اس حدیث میں ہے۔
تین اور چار رکعت والی نماز میں پہلے تشہد میں اسی طرح بیٹھا جاتا ہے۔
جس طرح سجدوں کے درمیان بیٹھتے ہیں۔
اگر دو رکعت نماز ہو تو اس کا پہلا تشہد ہی آخری تشہد ہے لہٰذا اس میں تورک کے طریقے سے بیٹھنا چاہیے۔

(4)
حدیث میں مذکور دیگر مسائل کی وضاحت گزشتہ ابواب میں اپنے اپنے مقام پر ہوچکی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1061   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 828  
828. حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر لے گئے۔ اور جب آپ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے، پھر اپنی کمر کو خمیدہ کیا۔ اور جب آپ نے سر اٹھایا تو ایسے سیدھے کھڑے ہوئے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی۔ اور جب آپ نے سجدہ کیا تو نہ آپ دونوں ہاتھوں کو بچھائے ہوئے تھے اور نہ ہی سمیٹے ہوئے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں۔ اور جب دو رکعتوں میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں آگے کرتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، پھر اپنی نشست گاہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:828]
حدیث حاشیہ:
صحیح ابن خزیمہ میں دس بیٹھنے والے اصحاب کرام ؓ میں سہل بن سعد اور ابوحمید ساعدی اور محمد بن مسلمہ اور ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم کے نام بتلائے گئے ہیں باقی کے نام معلوم نہیں ہو سکے یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ کہیں مجمل اور کہیں مفصل مروی ہے اس میں دوسرے قعدے میں تو اس کا ذکر ہے یعنی سرین پر بیٹھنا دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں کو آگے کر کے تلے سے دائیں طرف باہر نکالنا اور دونوں سرین زمین سے ملا کر بائیں ران پر بیٹھنا یہ تورک چار رکعت والی نماز میں اور نماز فجر کی آخری رکعت میں کرنا چاہیے۔
امام شافعی امام احمدبن حنبل کا یہی مسلک ہے آخر حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک کی جو روایت ہے اسے فریابی اور جوزنی اور ابراہیم حربی نے وصل کیا ہے سنن نماز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک اصولی تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 828   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:828  
828. حضرت محمد بن عمرو بن عطاء سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر لے گئے۔ اور جب آپ نے رکوع کیا تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے، پھر اپنی کمر کو خمیدہ کیا۔ اور جب آپ نے سر اٹھایا تو ایسے سیدھے کھڑے ہوئے کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ گئی۔ اور جب آپ نے سجدہ کیا تو نہ آپ دونوں ہاتھوں کو بچھائے ہوئے تھے اور نہ ہی سمیٹے ہوئے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ تھیں۔ اور جب دو رکعتوں میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔ اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو بایاں پاؤں آگے کرتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے، پھر اپنی نشست گاہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:828]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ روایت مختلف طرق سے کہیں مجمل اور کہیں مفصل بیان ہوئی ہے۔
مذکورہ روایت کے مطابق پہلے تشہد میں افتراش اور دوسرے میں تورک کا ذکر ہے۔
اس کے تین طریقے احادیث میں بیان ہوئے ہیں:
٭ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بائیں پاؤں کو دائیں ران کے نیچے سے آگے بڑھا دیا جائے پھر سرین پر بیٹھا جائے جیسا کہ حدیث بالا میں مذکور ہے۔
٭ حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ چوتھی رکعت میں ہوتے تو بائیں سرین کے ساتھ زمین پر بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں قدموں کو ایک جانب سے نکال لیتے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 731)
٭ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو بائیں پاؤں کو ران اور پنڈلی کے درمیان میں کر لیتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1307(579)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے تورک ثابت ہے اور آپ کبھی ایک طریقہ استعمال کرتے اور کبھی دوسرا، اور تورک اس تشہد میں ہوتا جس میں سلام پھیرا جاتا ہے۔
اس کی وجہ اور علت میں اختلاف ہے۔
امام احمد کے نزدیک اس کی علت "تفریق" ہے، یعنی پہلے اور دوسرے تشہد میں فرق کرنے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز فجر اور نماز جمعہ میں تورک نہیں ہے۔
امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی علت تخفیف ہے، یعنی تشہد اول چھوٹا ہوتا ہے اس میں تورک کی ضرورت نہیں اور تشہد ثانی طویل ہوتا ہے، اس لیے اس میں تخفیف ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ طویل قعود کے پیش نظر ہر نماز کے آخری تشہد میں تورک ہو گا۔
نماز فجر اور نماز جمعہ میں بھی تورک کیا جائے۔
بہرحال ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ روایات میں صراحت ہے کہ جس تشہد میں سلام پھیرنا ہوتا اس میں تورک کیا جاتا۔
ابن حبان کی روایت میں نماز کے خاتمے کے الفاظ ہیں۔
(2)
ایک روایت ہے کہ اس مجلس میں موجود تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابو حمید ساعدی ؓ کے بیان کی تصدیق کی اور بیک زبان فرمایا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 730)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت سہل بن سعد، ابو اسید ساعدی، محمد بن مسلمہ، حضرت ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم نے نماز کا طریقہ عملی طور پر اور بعض روایات کے مطابق زبان سے بیان فرمایا ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 397/2) (3)
اس روایت کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کچھ استنادی مباحث بھی ذکر کیے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
٭ اس حدیث کی سند میں تصریح سماع نہ تھی، امام بخاری نے دوسرے طریق بیان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سند کے تمام راویوں نے اپنے شیوخ سے اس حدیث کو سنا ہے۔
٭ حضرت عبداللہ بن مبارک کی روایت کو جعفر فریابی، علامہ جوزقی اور ابراہیم الحربی نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 400/2)
واضح رہے کہ مذکورہ حدیث طریقۂ نماز کے متعلق ایک اصولی اور تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ صحابئ جلیل نے اس حدیث کا آغاز طریقۂ وضو اور استقبال قبلہ کے ذکر سے کیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 828