ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگوں کو عشاء اور فجر کی نماز کا ثواب معلوم ہو جائے، تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آئیں، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 796]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17428)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/80) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر چل نہ سکے تو ہاتھ اور سرین (چوتڑ) کے بل جماعت میں آئیں، اس حدیث سے عشاء اور فجر کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کا وقت نیند اور سستی کا وقت ہوتا ہے، اور نفس پر بہت شاق ہوتا ہے کہ آرام چھوڑ کر نماز کے لئے حاضر ہو، اور جو عبادت نفس پر زیادہ شاق ہو اس میں زیادہ ثواب ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث796
اردو حاشہ: (1) ”کیا کچھ“ سے مراد ان نمازوں کا بہت زیادہ ثواب اور ان کی برکات ہیں۔
(2) یہ برکات اور رحمتیں صرف اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہیں کہ یہ نمازیں باجماعت ادا کی جائیں۔
(3)(حَبوًا) کے معنی ہیں: ہاتھوں کے سہارے چلنا یا گھٹنوں یا سرینوں کے بل گھیسٹ گھسٹ کر چلنا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر لوگوں کو ان نمازوں کی اہمیت کا کما حقہ احساس ہو جائے تو کبھی ان سے غیر حاضر نہ رہیں خواہ مسجد تک آنے میں انھیں کتنی ہی تکلیف اور مشقت برداشت کرنی پڑے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 796