انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت قائم ہو گی، جب لوگ مسجدوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 739]
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آخری زمانہ میں لوگ کہیں گے کہ ہماری مسجد فلاں کی مسجد سے زیادہ عمدہ، بلند اور پرشکوہ ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجدوں پر فخر کرنا قیامت کی نشانی ہے، لیکن مسجدوں کو آراستہ اور بلند کرنے کی ممانعت نہیں نکلتی، دوسری حدیثوں سے اس امر کی کراہت ثابت ہے، لیکن علماء نے کہا ہے کہ اس زمانہ میں مصلحتاً مساجد کی بلندی پر سکوت کرنا چاہئے کیونکہ یہود اور نصاری نے اپنے گرجاؤں کو بہت بلند اور عمدہ بنانا شروع کیا ہوا ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث739
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جن اعمال کو قرب قیامت کی علامت قرار دیا گیا ہے وہ ناپسندیدہ ہیں یعنی یہ اعمال وہ لوگ کریں گے جودین کی اصل روح سے بےگانہ اور دین کی صحیح تعلیمات سے ناواقف ہوں گے۔
(2) مسجدوں میں فخر کے دو مطلب بیان کیے گیے ہیں:
* ایک تو یہ کہ مسجدوں میں یہ دین سیکھنے سکھانے یا ذکر وتلاوت اور نماز میں مشغول ہونے کے بجائے ایسی باتوں میں مشغول ہوجائیں گے جن میں ایک دوسرے پر مال ودولت وغیرہ میں کثرت پر فخر کا اظہار ہوگا جو مسجد سے باہر بھی نہیں کرنا چاہیے۔
* دوسرا مطلب یہ ہے کہ مسجدوں کی تعمیر میں فخر کریں گے۔ ان کی توجہ مسجد کی آبادی اور نماز باجماعت کی پابندی کی طرف ہونے کے بجائےمسجدوں کی ظاہری شان و شوکت کی طرف ہوگی۔ یہ دونوں کام برے ہیں اور ان سے اجتناب ضروری ہے۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو جس عنوان کے تحت ذکر کیا ہے اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ان کے نزدیک حدیث کا دوسرا مطلب زیادہ صحیح ہے۔
(3) باب کا عنوان تشيید المساجد ہے۔ اس تشيید کے دو مطلب ہیں: ایک لمبی چوڑی عمارتیں بنانا جیسے کہ ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ مسجدیں تو بہت وسیع بنائی جاتی ہیں عمارت بلند وبالا تیار کی جاتی ہے لیکن نماز کے وقت بمشکل ایک آدھ صف پُر ہوتی ہے جبکہ اصل اہمیت اس بات کو ہے کہ ہر نماز کے وقت تمام مسلمان مسجد میں آ کر نماز پڑھیں پھر اگر ضرورت محسوس کی جائے تو مسجد میں مزید جگہ شامل کرلی جائے۔ تشيید کا دوسرا مطلب ہے عمارت کو چونا گچ بنانا، قدیم زمانے میں عمارت کو محفوظ بنانے کا یہ طریقہ تھا۔ آج کل بہتر سے بہتر سیمنٹ سریا وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے سنگ مرمر اور ٹائلوں سے دیواروں اور چھت کو مزین کیا جاتا ہے جب کہ اس سے زیادہ ضرورت ایمان اور تقوی کو مضبوط کرنے کی اور مسجدوں میں پابندی سے حاضر ہونے کی ہے البتہ مقامی موسمی حالات کے لحاظ سے تعمیر میں مناسب حفاظتی تدابیر کا خیال رکھنا منع نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 739
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 449
´مساجد کی تعمیر کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں پر فخر و مباہات نہ کرنے لگیں“۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 449]
449۔ اردو حاشیہ: ”مساجد میں فخر“ یعنی مساجد کے بارے میں لوگ ایک دوسرے پر فخریہ باتیں کریں گے، مثلاً ہماری مسجد بڑی ہے، اونچی ہے، خوبصورت ہے وغیرہ۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ مساجد میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرنے کی بجائے فخریہ قسم کی باتیں کیا کریں گے اور دونوں ہی صورتیں بہت بری ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 449
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 690
´مساجد کی تعمیر میں فخر و مباہات کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ لوگ مساجد بنانے میں فخر و مباہات کریں گے۔“[سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 690]
690 ۔ اردو حاشیہ: نیک کام میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا مستحب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ»[البقرہ 148: 2] ”نیکیوں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے سے سبقت کرو۔“ اس لحاظ سے مسجد کی تعمیر ایک مستحسن عمل اور ایمان کی دلیل ہے، لیکن تعمیر مساجد میں صرف روزمرہ کی ضروریات کو مدنظر رکھنا چاہیے جو واقعی انسانی ضرورت اور فطرت کا تقاضا ہیں، یعنی موسمی تغیرات (آندھی، طوفان، گرمی اور سردی وغیرہ) سے تحفظ کے پیش نظر مساجد کی عمارتوں میں استحکام ہونا چاہیے۔ لیکن ان کی اس طرح تزئین و آرائش اور بے جا زیب و زینت نہ کی جائے جس طرح یہود و نصاریٰ کے معبد خانے ہوتے ہیں۔ احادیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث 428] نیز صرف مسجدیں بنانا ہی مقصد نہ ہو بلکہ انہیں آباد کرنا اولین مقصد ہونا چاہیے وگرنہ صرف تعمیری مقابلہ بازی اور فخر و مباہات کی خاطر ان کی تعمیرات میں مبالغہ آرائی قرب قیامت کی نشانی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 690
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 206
´مساجد کا بیان` سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ لوگ مسجدوں (کی تعمیر) میں فخر نہ کرنے لگیں۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے بجز ترمذی کے ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 206]
206 لغوی تشریح: «يَتَبَاهَى» ایک دوسرے پر فخر کریں گے۔ «فِي اَلْمَسَاجِدِ» یعنی مسجدوں کی عمارتوں کے بلند و بالا اور عالی شان ہونے میں، ان کی زیبائش و تزئین اور خوبصورتی میں، یا اس سے مراد یہ ہے کہ مسجدوں میں بیٹھ کر اپنے معاملات پر فخر کریں گے، ان کا احترام نہیں کریں گے بلکہ اس مقام پر جہاں نماز، تلاوت قرآن، ذکر الٰہی وغیرہ ہونا چاہیے تھا وہاں فخر اور تکبر جیسے قبیح کام کا ارتکاب کریں گے۔ فائدہ: قیامت کے قریب ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ مسجدیں تعمیر کریں گے اور انہیں خوب نقش و نگار اور بیل بوٹوں سے آراستہ کریں گے، پھر باہمی مقابلہ کریں گے کہ ہماری مسجد فلاں کی مسجد سے خوبصورت اور بہترین بنی ہوئی ہے، مگر آباد نہ ہوں گی، نمازیوں سے خالی ہوں گی اور تعمیر کرنے والوں کی بےحسی اور عدم توجہ کا نوحہ کر رہی ہوں گی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 206