عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 723]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4105، ومصباح الزجاجة: 268)، وأخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 5 (608)، بدء الخلق 12 (3296)، التوحید 52 (7548)، سنن النسائی/الأذان 14 (645)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (5)، مسند احمد (3/35، 43) (صحیح)» ( «ولا شجر ولا حجر» کا لفظ صرف ابن ماجہ میں ہے، اور ابن خزیمہ میں بھی ایسے ہی ہے)
وضاحت: ۱؎: تو جتنی دور آواز پہنچے گی گواہ زیادہ ہوں گے، اور صحراء و بیابان کی قید اس لئے ہے کہ آبادی میں گواہوں کی کمی نہیں ہوتی، آدمی ہی بہت ہوتے ہیں اس لئے زیادہ آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ آواز بلند کرنا مستحب ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث723
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) جہاں انسان اکیلا ہو اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے ارادے سے اذان کہہ کر نماز پڑھے اس کا ثواب گزشتہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔ ایسے موقع پر یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اذان کی آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی انسان تو سننے والا موجود نہیں جو اذان سن کر نماز باجماعت میں شریک ہونے کے لیے آ جائے۔ لیکن زیر مطالعہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بھی اذان بلند آواز سے ہی کہنا مستحب ہے۔
(2) بے جان چیزیں بھی ایک قسم کا شعور رکھتی ہیں۔ اگرچہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔
(3) قیامت اور آخرت کے حالات اس دنیا کے قوانین سے مختلف ہیں۔ وہاں بے جان چیزیں بھی انسان کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گی بلکہ خود انسان کے اعضاء بھی اس کے خلاف گواہ بن جائیں گے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾(النور: 24/24) جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعما ل كي گواہی دینگے۔ اسی طرح مؤذن کے حق میں شجر وحجر گواہی دینگے۔
(4) اللہ کے ہاں مؤذن کی شان بہت بلند ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان نماز باجماعت کا ذریعہ ہے یعنی بڑی نیکی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض چھوٹی نیکیوں کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان نیکیوں کو بھی معمولی سمجھ کر ان سے بے پروائی نہیں کرنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 723
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 645
´اذان میں آواز بلند کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ۱؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 645]
645 ۔ اردو حاشیہ: ➊ معلوم ہوا آدمی اکیلا ہو اور بستی سے باہر ہو، تب بھی اذان کہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے، نیز ممکن ہے وہاں قریب کوئی اور چرواہا یا مسافر ہو تو وہ بھی مل جائے گا اور نماز باجماعت پڑھی جائے گی اور اگر وہاں کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے دیگر مخلوقات، یعنی فرشتے وغیرہ نماز ادا کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، [فائده حديث: 668] ➋ اذان، تلبیہ اور تکبیر، یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان ہو، جس قدر بھی بلند آواز سے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اذان تو ویسے بھی لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے ہے، اس لیے ہر ممکن حد تک بلند آواز سے ہونی چاہیے تاکہ دور دور تک اطلاع ہو سکے، نیز قیامت کے دن تمام چیزیں اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گی، مؤذن کو اور کیا چاہیے! ➌ جن بھی بنی آدم کی آواز سنتے ہیں۔ ➍ مخلوق بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 645
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7548
7548. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے کہا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریاں اور جنگل بہت پسند کرتے ہو، لہذا جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں رہو تو بلند آواز سے اذان کہو کیونکہ مؤذن کی اذان جہاں تک پہنچے گی اوراسے جن وانس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7548]
حدیث حاشیہ: اس باب کی پہلی حدیث میں قرآن کواچھی آواز سے زینت دینےکا، دوسری حدیث میں اس کی تلاوت کا، تیسری حدیث میں قراءت کی عمدگی خوش آوازی کا، چوتھی حدیث میں قراءت بلند یاپست آواز سےکرنے کا، پانچویں حدیث میں اذان بلند آواز سےدینے کا بیان ہے۔ ان سب احادیث سےامام بخاری نے یہ نکالا کہ قراءت اورچیز ہے قرآن اورچیز ہے۔ قراءت ان صفات سے متصف ہوتی ہے اس سےمعلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اورمخلوق ہے برخلاف قرآن کے کہ وہ اللہ کا کلام اورغیر مخلوق ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7548
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3296
3296. حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3296]
حدیث حاشیہ: حدیث ہٰذا میں مؤذن کی اذان کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔ اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا اور یہ بھی کہ جن قیامت کے دن بعض انسانوں کے اعمال خیر مثل اذان پر اللہ کے ہاں اس بندے کے حق میں خیر کی گواہی دیں گے۔ جنوں کا ذکر آنے سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3296
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3296
3296. حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3296]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں مؤذن کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔ اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا۔ پھر اس حدیث میں ان کی گواہی کاذکر ہے اورگواہی اچھے عمل کی دی جاتی ہے۔ اورگواہی بھی وہ دیتا ہے جو قابل اعتماد ہو۔ اس سے ان کے اچھے ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ شیطان کے متعلق تو پہلے ذکر ہواہے کہ وہ اذان کی آواز سن کر پادتا ہوا بھاگ جاتاہے۔ 2۔ بہرحال اس حدیث سے ان کے وجود اور ان کے اچھے ہونے کاذکر ملتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ جنوں نے کہا: ﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا﴾”ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجہ کے ہیں اور ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ “(الجن 14/72، 15) اس آیت کریمہ سے بھی ان کے ثواب عقاب کا پتہ چلتا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3296
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7548
7548. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے کہا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریاں اور جنگل بہت پسند کرتے ہو، لہذا جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں رہو تو بلند آواز سے اذان کہو کیونکہ مؤذن کی اذان جہاں تک پہنچے گی اوراسے جن وانس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7548]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بلند آواز سے اذان دینے کابیان ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ قراءت اور چیز ہے اورقرآن اور چیز ہے کیونکہ قراءت ہی بلند اور پست جیسی صفات سے متصف ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت اور غیر مخلوق ہے۔ بہرحال بندوں کی آواز ان کا فعل ہے جس پر اسے ثواب کا حقدار ٹھرایا جائے گا جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7548