ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے، اور جنبی ہوتے تو نماز جیسا وضو کرتے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 584]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث584
اردو حاشہ: یہ حدیث گزشتہ باب کی احادیث کی نسبت زیادہ قوی ہے، تاہم وہ روایات بھی صحیح ہیں، اس لیے ان میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ جن میں وضو کرنے کا ذکر ہے، اس کو استحباب پر محمول کیا جائےگا”اور جن میں وضو کیے بغیر سو جانے کا ذکر ہے”اس سے مراد جواز ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 584
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 222
´جنبی نہائے بغیر سو سکتا ہے` «. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ، تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ . . .» ”. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت میں جب سونے کا ارادہ کرتے تو وضو کر لیتے، جیسے نماز کے لیے وضو کرتے تھے . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 222]
فوائد و مسائل: یعنی جنبی اگر نہا نہ سکے تو سونے سے پہلے وضو کر لے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 222
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 256
´جنبی جب کھانے کا ارادہ کرے تو اس کے وضو کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (اور عمرو کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جب کھانے یا سونے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے تو وضو کرتے، اور عمرو نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے۔“[سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 256]
256۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ وضو ضروری نہیں، مستحب ہے کیونکہ ایک روایت میں «لا یمس ماء»”پانی نہ چھوتے تھے۔“[مسند أحمد: 43/6] کے الفاظ بھی ہیں۔ اگرچہ یہ وضو جنبی کو پاک تو نہیں کرے گا مگر صفائی جس قدر بھی ہو سکے، اچھی بات ہے۔ ➋ امام نسائی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں موجود اختلاف کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ جب اس حدیث کو حمید بیان کرتا ہے تو «کان النبي صلی اللہ علیه وسلم» کہتا ہے جبکہ عمرو نے اپنی سند میں «کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیه وسلم» کہا ہے۔ یہ ہے محدثین رحہم اللہ کا نقل سند میں حزم و احتیاط۔ رہا الفاظ حدیث کا ضبط و اتقان تو اس میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ رحمھم اللہ رحمة واسعة۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 256
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 257
´جنبی جب کھانے کا ارادہ کرے تو اس کے صرف دونوں ہاتھ دھونے پر اکتفا کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں سونے کا ارادہ کرتے تو وضو کرتے، اور جب کھانے کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھو لیتے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 257]
257۔ اردو حاشیہ: ➊ کھانے پینے کے وقت ہاتھ دھونا کم از کم ایسا عمل ہے جو جنبی کو کرنا چاہیے۔ ➋ حالتِ جنابت میں ہاتھ دھوئے بغیر کھانا پینا تو قطعاً فطرت سلیمہ کے خلاف ہے اور شریعت فطرت ہی کا دوسرا نام ہے، تاہم عام حالات میں کھانے پینے کے وقت ہاتھ دھونے ضروری نہیں ہیں جبکہ وہ صاف ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 257
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث591
´جنابت کی حالت میں کھانے پینے کے حکم کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے، تو وضو کر لیتے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 591]
اردو حاشہ: اس وضو سے نماز والا وضو بھی مراد ہوسکتا ہے”جیسے حدیث: 592 میں آ رہا ہے۔ اور لغوی وضو، یعنی ہاتھ منہ دھونا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ جیسے صحیح ابن خزیمہ میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو جب غسل کی حاجت ہوتی اور (اسی دوران میں) آپ کچھ کھانا تناول فرمانا چاہتےتو دونوں ہاتھ دھولیتے”پھر کھانا تناول فرما لیتے۔ (صحیح ابن خزیمة، الوضوء، جماع أبواب فضول التطھیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باب ذكر الدليل علي أن الأمر بالوضوء للجنب عند ارادة الأكل أمر ندب وأرشاد وفضيلة وإباحة، حديث: 218)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 591
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث593
´کھانے پینے کے لیے جنبی کا صرف ہاتھ دھو لینا ہی کافی ہے۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے کا ارادہ کرتے اور آپ جنبی ہوتے، تو اپنے ہاتھ دھو لیتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 593]
اردو حاشہ: کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا مستحب ہے اگرچہ جنبی نہ ہو لیکن جب جنبی ہو تو ہاتھ دھونا ضروری اور وضو کر لینا مستحب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 593
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:288
288. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب بحالت جنابت سونا چاہتے تو پہلے اپنی شرمگاہ کو دھوتے، پھر وضو کرتے جو نماز کے لیے کیا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:288]
حدیث حاشیہ: 1۔ (تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ) سے مراد یہ ہے کہ نماز والا وضو کرتے تھے۔ یہ مطلب نہیں کہ ادائے نماز کے لیے وضو کرتے تھے۔ نیز اس وضو سے مراد لغوی وضو نہیں، بلکہ شرعی وضو ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں۔ جمہور علماء کے نزدیک یہ وضو، وضوئے شرعی ہے اور اس وضو کی حکمت یہ ہے کہ اس سے حدث میں کمی آجاتی ہے، خصوصاً جواز تفریق غسل کے قول پر یعنی ان حضرات کے قول پر جو غسل میں موالات ضروری خیال نہیں کرتے، لہٰذا اگر نیت غسل کر لے گا۔ تو اعضائے وضو سے تو رفع حدث ہو ہی جائے گا۔ اس کی تائید ابن ابی شیبہ کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے رجال ثقہ ہیں کہ اگر کسی کو رات میں جنابت لاحق ہو اور وہ سونا چاہے تو وضو کر لے، کیونکہ وضو کرنا نصف غسل جنابت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 113/1) بعض نے یہ حکمت لکھی ہے کہ دو طہارتوں میں سے ایک طہارت کا حصول ہے اور اس بنا پر تیمم بھی وضو کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔ بیہقی میں باسناد حسن حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ بحالت جنابت جب سونے کا ارادہ فرماتے تو وضو یا تیمم کر لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیهقي: 200/1) اگرچہ یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ آپ کا یہ تیمم پانی ملنے میں دشواری کی بنا پر ہو۔ بعض حضرات نے اس وضو کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ اس سے دوبارہ جماع کرنے یا غسل کرنے کے لیے نشاط پیدا ہو جاتا ہے۔ حافظ ابن دقیق العید ؒ نے امام شافعی ؒ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ تخفیف حدث والا یہ وضو حائضہ کے لیے نہیں ہے، کیونکہ وہ تو غسل بھی کر لے تو بھی اس کا حدث رفع نہیں ہوتا۔ البتہ خون حیض کے منقطع ہونے پر وضو کا استحباب ہوگا کہ اگر وہ انقطاع خون کے بعد سونا چاہے تو وضو کر کے سو جائے، جس طرح جنبی کے لیے حکم ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غسل جنابت فوراً کرنا ضروری نہیں، البتہ نماز کا وقت آنے پر غسل سے حکم میں شدت آجاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نیند کے وقت (تنظيف)(صفائی ستھرائی) مطلوب ہے۔ امام ابن جوزی ؒ نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ فرشتے میل کچیل، گندگی اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں اور شیاطین ان چیزوں کے قریب ہوتے ہیں اس لیے کم ازکم وضو کا حکم ہے تاکہ فرشتوں کا قرب اور شاطین سے دوری حاصل ہو۔ (فتح الباري: 512/1) 2۔ جنبی جنابت کی حالت میں مختلف افعال بجا لاتا ہے ان کے اختلاف کی وجہ سے اس پر مختلف احکام مرتب ہوتے ہیں۔ مثلاً بحالت جنابت چلنا پھرنا یا مبادی غسل کے طور پر کوئی کام کرنا اس قسم کے افعال وضو کے بغیر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی کراہت ہی کا پہلو ہے ان کے بعد کھانے پینے اور سونے کا درجہ ہے ان کے لیے جمہور نے طہارت صغری کو مستحب قراردیا ہے پھر دوسری مرتبہ جماع کرنے کا مرتبہ ہے اس کے لیے حدیث میں وضو کا حکم ہے اور اس کے متعلق امر کا صیغہ آیا ہے جو کہ یہاں وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب وارشاد کے لیے ہے کیونکہ اس کا قرینہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حکمت بایں الفاظ بیان فرمائی ہےکہ اس طرح وضو کرنا دوبارہ جماع کے لیے زیادہ نشاط پیدا کرتا ہے۔ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے انھی الفاظ سے جمہور کے مسلک کے مطابق استحباب ہی پر استدلال کیا ہے3۔ بہر حال بحالت جنابت نیند سے پہلے وضو کرنا ضروری نہیں، بلکہ مستحب اور افضل ہے اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے غسل جنابت سے قبل سونے کے سوال پر فرمایا کہ ہاں سو سکتا ہے مگر وضو کرے اگر چاہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 106/1۔ حدیث: 211)(إِن شَاءَ) کے الفاظ سے وجوب نہیں بلکہ استحباب ثابت ہو تا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 288