الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
72. بَابُ : الْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ وَالصَّلَوَاتِ كُلِّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ
72. باب: ہر نماز کے لیے وضو کرنے اور ایک وضو سے ساری نمازیں پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 511
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ تَوْبَةَ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُبَشِّرٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ " يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ هَذَا، فَأَنَا أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
فضل بن مبشر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو ایک ہی وضو سے کئی نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، چنانچہ میں بھی ویسے ہی کرتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 511]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2571، ومصباح الزجاجة: 211) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں الفضل بن مبشر ضعیف ہیں، لیکن سابقہ شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے)

وضاحت: ۱؎: اگر وضو باقی ہے ٹوٹا نہیں ہے، تو ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف،الفضل بن مبشر ضعفه الجمھور ‘‘
وقال الحافظ: فيه لين (تقريب: 5416)
والحديث السابق (الأصل: 510) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 396

   سنن ابن ماجهيصلي الصلوات بوضوء واحد

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 511 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث511  
اردو حاشہ:
(1)
کسی عالم کو کوئی ایسا کام کرتے دیکھیں جو پہلے ہمیں معلوم نہ ہو تو عالم سے اس کے بارے میں پوچھ لینا یا دلیل دریافت کرنا احترام کے منافی نہیں۔

(2)
عوام میں سے کوئی شخص اگر عالم کی کسی بات پر تنقید کرے تو عالم کو چاہیےکہ خفگی کا اظہار نہ کرے بلکہ مسئلے کی وضاحت کردے۔

(3)
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن معناً درست ہے جس طرح کہ سابقہ روایت میں گزرا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 511