عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ آج رات میرے رب نے مجھے کس بات کا اختیار دیا ہے“؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا شفاعت کروں تو میں نے شفاعت کو اختیار کیا“، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجئیے کہ وہ ہمیں بھی شفاعت والوں میں بنائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شفاعت ہر مسلمان کو شامل ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4317]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10909)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة القیامة 13 (2441) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4317
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جو اسلام پہ فوت ہو۔
(2) شفاعت کی امید پہ گناہ کرتے چلے جانا عقل مندی نہیں۔ کیونکہ بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جنکے نتیجے میں ایمان کی نعمت چھین بھی سکتی ہے (3) مزید فوائد کے لیے ملاحظہ فرمائیں حدیث نمبر: 4311
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4317