ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام لوگوں سے برگزیدہ بنایا، یہ سن کر ایک انصاری نے اس کو ایک طمانچہ مارا، اور کہا: تم ایسا کہتے ہو جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون»”اور صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان والے سب بیہوش ہو جائیں گے، سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تب وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے“(سورۃ الزمر: ۶۸)، میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا، تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا، یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر دیا ہے، اور جس نے یہ کہا: میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے غلط کہا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4274]
وضاحت: ۱؎: یونس علیہ السلام سے غلطی ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شان بڑی ہے اور نبوت اور رسالت کا مرتبہ سب کو حاصل ہے لہذا اپنی رائے سے ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو، بعضوں نے کہا کہ یہ حدیث پہلے کی ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے، یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح فضیلت مت دو کہ دوسرے نبی کی تحقیر یا توہین نکلے کیونکہ کسی نبی کی تحقیر یا توہین کفر ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4274
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسلمانوں میں اپنے دین کی غیرت مطلوب ہے۔ لیکن اس کا اظہار ایسے انداز سے ہوجس سے کسی دوسرے نبی کی تحقیر نکلتی ہو توجائز نہیں۔
(2) صحابی نے یہودی کو اس لئے تھپڑ مارا تھا کہ اس کے کلام سے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا اشارہ ملتا تھا۔ اور یہ حرکت ناشائستہ تھی۔
(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جزوی افضیلت کا ذکر اس لئے فرمایا گیا کہ سچی بات بھی اس انداز سے نہیں ہونی چاہیے۔ جس سے غلط مفہوم سمجھے جانے کا اندیشہ ہو۔
(4) قیامت کے حالات غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے جتنی بات نبی کریمﷺ کو بتائی گئی۔ آپﷺ کو معلوم ہوگئی۔ اورجو نہیں بتائی گئی۔ وہ معلوم نہیں ہوئی۔ اس لئے نبی کریمﷺ کے لئے کلی علم غیب کا عقیدہ درست نہیں۔
(5) عرش اللہ کی مخلوق ہے۔ جس کے پائے ہیں۔ قیامت کے دن اسے سب دیکھیں گے۔ اور بعض خاص نیکیوں کے عامل اس کے سائے میں محشر کی شدتوں سے محفوظ ہوں گے۔
(6) صور کی آواز سے جو لوگ بے ہوش نہیں ہوں گے۔ ان کی وضاحت حدیث میں نہیں اس میں اپنی طرف سے رائے زنی مناسب نہیں۔
(7) مذکورہ حدیث میں صور میں پھونکنے کی بابت یہ مروی ہے کہ صور میں دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ پہلی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے کےدرمیان کتنا فاصلہ ہوگا؟ اس کی بابت حضرت ابو ہریرہ ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دونوں مرتبہ صور پھونکنے میں چالیس کا فاصلہ ہوگا۔ لوگوں نے کہا: ابو ہریرہ چالیس دن کا؟ انہوں نے کہا میں نہیں کہہ سکتا۔ پھر انہوں نے کہا چالیس برس کا؟ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نہیں کہہ سکتا۔ انھوں نے کہا چالیس مہینے کا؟ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نہیں کہہ سکتا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کا سارا بدن بوسیدہ ہوجائےگا۔ (گل سڑ جائے گا) مگر ریڑھ کی ہڈی کا سر باقی رہے گا۔ پھر قیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4814)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4274