الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
30. بَابُ : ذِكْرِ التَّوْبَةِ
30. باب: توبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4253
حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ , أَنْبَأَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , عَنْ ابْنِ ثَوْبَانَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ مَكْحُولٍ , عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آ جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4253]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6674، 8615، ومصباح الزجاجة: 1523)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 99 (3537)، مسند احمد (2/132، 153) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: مزی کہتے ہیں کہ ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو آیا ہے، جو وہم ہے، صحیح عبداللہ بن عمر بن الخطاب ہے)۔

قال الشيخ الألباني: حسن

   جامع الترمذيالله يقبل توبة العبد ما لم يغرغر
   سنن ابن ماجهالله ليقبل توبة العبد ما لم يغرغر

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4253 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4253  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نزع سے مراد روح قبض کرنے کاعمل شروع ہونا ہے۔

(2)
جب موت کے فرشتے ظاہر ہوجاتے ہیں۔
تو عالم آخرت سے تعلق قائم ہوجاتا ہے۔
اس لئے توبہ کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔

(3)
بند ے کو چاہیے کہ جلد از جلد توبہ کرلے معلوم نہیں کب آخری وقت آجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4253   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3537  
´توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ (موت کے وقت) اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3537]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
روح جسم سے نکلنے کے لیے اس کے گلے تک پہنچ نہ جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3537