تخریج: «أخرجه الترمذي، صفة القيامة، باب 49، حديث:2499، وابن ماجه، الزهد، حديث:4251.* قتادة عنعن، وفيه علة أخري، ذكرها الذهبي في تلخيص المستدرك:4 /244.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حدیث کا مفہوم دیگر دلائل کی رو سے صحیح معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور دلائل کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:
(المشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني‘ رقم:۲۲۸۰) 2. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر آدم زادخطا و گناہ کا پتلا ہے۔
3. انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی انسان معصوم نہیں۔
مگر آدمیت کا تقاضا ہے کہ جب کبھی خطا سرزد ہو تو فوراً حضرت آدم علیہ السلام کی طرح توبہ و استغفار کی طرف توجہ کی جائے اور شیطان کی طرح گناہ پر اصرار نہ کیا جائے۔