الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
30. بَابُ : ذِكْرِ التَّوْبَةِ
30. باب: توبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4251
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ , وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سارے بنی آدم (انسان) گناہ گار ہیں اور بہترین گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4251]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/صفة القیامة 49 (2499)، (تحفة الأشراف: 1315)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/198، سنن الدارمی/الرقاق 18 (2769) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / ت+2499

   جامع الترمذيكل ابن آدم خطاء وخير الخطائين التوابون
   سنن ابن ماجهكل بني آدم خطاء وخير الخطائين التوابون
   بلوغ المرامكل بني آدم خطاء وخير الخطائين التوابون

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4251 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4251  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ حدیث کا مفہوم دوسرے دلائل کی رو سے درست معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے حسن قراردیا ہے۔
دیکھئے: (المشکاۃ للألباني، التحقیق الثاني، رقم: 2280)

(2)
غلطی ہوجانا انسان کی فطری کمزوری ہے۔
لیکن غلطی کو تسلیم نہ کرنا بلکہ اصرار کرنا جرم ہے۔

(3)
توبہ بہت بڑی نیکی ہے۔
صحیح توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے۔

(4)
بغیر گناہ کے بھی استغفار کرنا بڑی نیکی ہے۔
جس کی روحانی برکات بے شمار ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4251   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1275  
خطا کرنے والوں میں سب سے بہتر توبہ کرنے والے ہیں
«وعن انس رضى النله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: كل بني آدم خطاء وخير الخطائين التوابون اخرجه الترمذي وابن ماجه وسنده قوي.»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم کی تمام اولاد بہت خطا کرنے والی ہے اور بہت خطا کرنے والوں میں سب سے بہتر بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں۔ اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور اس کی سند قوی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1275]
تخریج:
«حسن»
[ترمذي 2499]،
[ابن ماجه 4251]
البانی نے صحیح الترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے اور دیکھئے: [تحفة الاشراف 340/1]

فوائد:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطا سے کوئی انسان بھی خالی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ پیدا ہی کمزور کیا گیا ہے:
«وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا» [4-النساء:28]
اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔
اس سے اللہ کے احکام کی ادائیگی اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب میں کچھ نہ کچھ غفلت ہو ہی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہی نہیں کہ انسان سے کوئی خطا سرزد نہ ہو بلکہ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ خطا ہونے پر پلٹ آئے توبہ و استغفار کرے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو جنگل میں سواری گم ہونے پر موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کی سواری بمع ساز و سامان اسے دوبارہ مل گئی اور وہ خوشی سے بےخود ہو کر یہ کہہ اٹھا کہ یا اللہ تو میرا بندہ اور میں تیرا رب۔ [مسلم عن انس رضي الله عنه]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں لے جائے اور ایسی قوم لے آئے جو گناہ کریں پھر استغفار کریں اور اللہ تعالیٰ انہیں بخشے۔ [مسلم 2749، التوبه /2 ]
➋ گناہ سرزد ہونے کے بعد توبہ و استغفار سے بندے کو قرب کا وہ مقام حاصل ہوتا ہے جو کوئی گناہ سرزد نہ ہونے سے اسے حاصل نہ ہوتا «فَأُولَـئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ» [25-الفرقان:70]
یہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کو منع کردہ پودا کھانے کے بعد استغفار سے اور یونس علیہ السلام کو بغیر اجازت جانے پر مچھلی کے پیٹ میں «لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ» پڑھنے سے درجات کی مزید بلندی ہی حاصل ہوئی توبہ و استغفار کی وجہ سے یہ خطائیں ان کے مقام میں کسی کمی کا باعث نہیں بن سکیں۔
اللہ کی نافرمانیوں کا تذکرہ مزے لے لے کر بیان کرے گی معشوقوں سے ملاقات اور گناہ کی مجلسوں کے تذکرے، زنا کے قصے، نافرمانوں کی باتیں، بدکاروں کی گھاتیں، دولت مندوں کی فضول خرچیاں، ظالم و جابر لوگوں کی چیرہ دستیاں، ان کے مذموم حالات اور رسوم و رواج خوبصورت بنا کر پیش کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ مجلسوں کی رونق، سینماؤں کی آبادی، افسانوں اور ناولوں کی دلچسپی انہی حرام کاموں کے تذکرے سے ہے جو مسلمان کے لئے سرے سے جائز ہی نہیں۔
علاوہ ازیں غیبت، چغلی، دنگا، فساد، ٹھٹھا مذاق، گالی گلوچ، بد زبانی، جھوٹ، کفر اور بدعہدی سب زبان کی آفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب سے محفوظ رکھے۔
➍ خاموشی جو نجات کا باعث ہے یہ ہے کہ حرام، مکروہ، بے کار اور بے فائدہ باتوں سے خاموش رہے۔ ورنہ زبان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ یہی انسان کے دل کی بات کے اظہار کا ذریعہ ہے ایمان و اسلام، تلاوت و ذکر، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تعلیم و تعلم، اہل و عیال اور دوستوں سے خوش کلامی سب اسی کے ذریعے سر انجام پاتے ہیں۔ اس لیے اس امت میں مکمل خاموشی یا چپ کا روزہ رکھنا حرام ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ ایک آدمی کھڑا ہے آپ نے اس کے متعلق پوچھا: تو لوگوں نے بتایا یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا ہی رہے گا نہ بیٹھے گا، نہ سائے میں جائے گا، نہ ہی بات کرے گا اور یہ کہ وہ روزے رکھے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کہو کہ بات کرے، سائے میں چلا جائے، بیٹھ جائے، ہاں روزہ پورا کر لے۔ صحیح بخاری [6704] اس سے معلوم ہوا کہ خاموش رہنے کی نذر بھی مان لی ہو تو پوری کرنی جائز نہیں۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 124   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1275  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آدم کا ہر بیٹا خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہوں گے۔ اسے ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1275»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، صفة القيامة، باب 49، حديث:2499، وابن ماجه، الزهد، حديث:4251.* قتادة عنعن، وفيه علة أخري، ذكرها الذهبي في تلخيص المستدرك:4 /244.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حدیث کا مفہوم دیگر دلائل کی رو سے صحیح معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور دلائل کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (المشکاۃ للألباني‘ التحقیق الثاني‘ رقم:۲۲۸۰) 2. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر آدم زادخطا و گناہ کا پتلا ہے۔
3. انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی انسان معصوم نہیں۔
مگر آدمیت کا تقاضا ہے کہ جب کبھی خطا سرزد ہو تو فوراً حضرت آدم علیہ السلام کی طرح توبہ و استغفار کی طرف توجہ کی جائے اور شیطان کی طرح گناہ پر اصرار نہ کیا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1275