ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ (داغ) لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرے، باز آ جائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے، اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے، یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے: «كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون»”ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ پکڑ لیا ہے جو وہ کرتے ہیں“(سورة المطففين: 14)“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4244]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 74 (3334)، (تحفة الأشراف: 12862)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/297) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / ت+3334 ، نك+11658
العبد إذا أخطأ خطيئة نكتت في قلبه نكتة سوداء فإذا هو نزع واستغفر وتاب سقل قلبه وإن عاد زيد فيها حتى تعلو قلبه وهو الران الذي ذكر الله كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون
المؤمن إذا أذنب كانت نكتة سوداء في قلبه فإن تاب ونزع واستغفر صقل قلبه فإن زاد زادت فذلك الران الذي ذكره الله في كتابه كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3334
´سورۃ المطففین سے بعض آیات کی تفسیر۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ کو چھوڑ دیتا ہے اور استغفار اور توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی صفائی ہو جاتی ہے (سیاہ دھبہ مٹ جاتا ہے) اور اگر وہ گناہ دوبارہ کرتا ہے تو سیاہ نکتہ مزید پھیل جاتا ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتا ہے، اور یہی وہ «ران» ہے جس کا ذکر اللہ نے اس آیت «كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون»”یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے“(المطففین: ۱۴)، میں کیا ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3334]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے (المطففین: 14)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3334