سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالیٰ نسبی (اچھے حسب و نسب والا ہونا) مال ہے، اور کرم (جود و سخا اور فیاضی) تقویٰ ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4219]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 49 (3271)، (تحفة الأشراف: 4598)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/10) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4219
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لوگ مال دیکھ کر عزت کرتے ہیں۔ اونچے خاندان کا ایک آدمی غریب ہوجائے تو اس کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ لوگوں کے ہاں یہ کیفیت ہے۔
(2) اصل چیز جو عزت واحترام کا باعث ہونی چاہیے وہ کسی کی نیکی اور پرہیز گاری ہے۔ اصل شرف یہی ہے، اس لیے آخرت میں تقویٰ کی بنیاد پر ہی عزت ملے گی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُم﴾(الحجرات: 49/ 13) ”اللہ کے ہاں زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہو۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4219
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3271
´سورۃ الحجرات سے بعض آیات کی تفسیر۔` سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «حسب» مال کو کہتے ہیں اور «کرم» سے مراد تقویٰ ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3271]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: مؤلف نے یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾(الحجرات: 13) کی تفسیر میں ذکر کی ہے۔
نوٹ: (سند میں سلام بن ابی مطیع قتادہ سے روایت میں ضعیف راوی ہیں، نیز حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3271