مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73
´کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 73]
� تشریح:
شارحین حدیث لکھتے ہیں: «اعلم ان المراد بالحسد، ههنا الغبطة فان الحسد مذموم قدبين الشرع باوضح بيان وقد يجي الحسد بمعني الغبطة وان كان قليلا» یعنی حدیث 73 میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین و تخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ «اللهم احفظنا آمين»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 73
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1409
1409. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”قابل رشک تودوہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہواور اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی ہواور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش کی نعمت سے نوازا، وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1409]
حدیث حاشیہ:
امیر اور عالم ہردو اللہ کے ہاں مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔
مقبول وہ جو اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ زکوٰۃ اور صدقات سے مستحقین کی خبر گیری کریں اور اس بارے میں ریا نمود سے بھی بچیں‘ یہ مالدار اس قابل ہیں کہ ہر مسلمان کو ان جیسا مالدار بننے کی تمنا کرنی جائز ہے۔
اسی طرح عالم جو اپنے علم پر عمل کریں اور لوگوں کو علمی فیض پہنچائیں اور ریا نمود سے دور رہیں‘ خشیت ومحبت الٰہی بہر حال مقدم رکھیں‘ یہ عالم بھی قابل رشک ہیں۔
امام بخاری کا مقصد یہ کہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والوں کا بڑا درجہ ہے، ایسا کہ ان پر رشک کرنا جائز ہے جب کہ عام طورپر حسد کرنا جائز نہیں، مگر نیک نیتی کے ساتھ ان پر حسد کرنا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7141
7141. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قابل رشک دو آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا وہ اسے حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالٰی نے علم وحکمت سے سرفراز کیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7141]
حدیث حاشیہ:
یعنی اور لوگ رشک کے قابل ہی نہیںہیں یہ دو شخص البتہ رشک کے قابل ہیںکیوں کہ ان دونوں شخصوں نے دین اور دنیا دونوں حاصل کرلیے، دنیامیں نیک نام ہوئے اور آخرت میں شاد کام۔
بعضے بندے اللہ تعالیٰ کے ایسے بھی گزرے ہیں جن کو یہ دونوں نعمتیں سرفراز ہوئی ہیں ان پر بے حد رشک ہوتا ہے۔
نواب سید محمد صدیق حسن خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم بھی دیا تھا اور دولت بھی عنایت فرمائی تھی۔
انہوں نے اپنی دولت بہت سے نیک کاموں میں جیسے اشاعت کتب حدیث وغیرہ میں صرف کی۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرے اور ان کی نیکیاں قبول فرمائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7141
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 73
73. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ”رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:73]
حدیث حاشیہ:
شارحین حدیث لکھتے ہیں:
إعلم أن المراد بالحسد، ههنا الغبطة فإن الحسد مذموم قد بین الشرع بأوضح بیان وقد یجی الحسد بمعنی الغبطة و إن کان قليلا۔
یعنی حدیث (73)
میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔
جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔
کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین وتخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔
اللهم احفظنا آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 73
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7316
7316. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قابل رشک تو دو ہی آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے راہ حق میں لٹانے کی توفیق بھی دی اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی ہو پھر وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7316]
حدیث حاشیہ:
حکمت سے قرآن وحدیث کا پختہ علم مراد ہے جیسے حدیث میں فقاہت کہا گیا ہے۔
من یرد اللہ به خیرا یفقهه في الدین قرآن وحدیث کی فقاہت مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7316
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:73
73. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ”رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:73]
حدیث حاشیہ:
1۔
رشک یہ ہے کہ کسی میں اچھی صفت یا نعمت دیکھ کر انسان خوش ہو اور اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔
اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اسے حسد کہتے ہیں اور یہ قابل مذمت ہے نیز حسد ہمیشہ کسی خوبی اور کمال ہی پر ہوا کرتا ہے خواہ کمال علمی ہو یا عملی۔
حدیث کے پہلے جملے کا تعلق کمال عملی سے ہے اور دوسرے کا کمال علمی سے۔
اسی طرح فضائل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔
ظاہری اور باطنی، ظاہری فضائل میں اصل اصول مالداری ہے اور باطنی فضائل میں اصل اصول علم ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں لفظ غبطہ بڑھا دیا جس کے معنی رشک کے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ حسد اپنے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ غبطہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے کہ جب اس کا پڑوسی اس کا قرآن پڑھنا پڑھانا دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔
کاش! مجھے بھی قرآن کی یہ دولت ملے تو میں بھی اسی طرح کروں، جس طرح وہ کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026)
اور جب اس کی جود وسخا کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے بھی اس جیسی مال کی فراوانی ملے تو میں بھی اسی طرح خرچ کروں جس طرح وہ خرچ کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7232)
اس حدیث میں جس طرح پڑوسی نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے یہ صرف غبطے میں ہو سکتا ہے حسد میں یہ انداز نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 220/1)
3۔
حدیث میں حسد کو اپنے حقیقی معنی میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا یعنی اگر کوئی چیز قابل حسد ہو سکتی تو وہ صرف دو تھیں۔
ایک کمال علمی اور دوسرا کمال عملی جو جودوسخا سے متعلق ہے جب یہ بھی جائز نہیں تو باقی چیزوں میں تو یقینی طور پر حرام ہے۔
(فتح الباري: 220/1)
4۔
حسد حرام اور ناجائز ہے لیکن علمائے امت نے ایک مقام پر حسد جائز رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کسی کافر یا فاسق کے پاس علم اور مال کی دولت ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہو اور لوگوں کو ان کے ذریعے سے گمراہ کرتا ہو تو ایسے حالات میں اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔
(فتح الباري: 219/1)
5۔
مال دار کا عموماً یہ حال ہوتا ہے کہ مال اس کے دل پر حاوی ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی کمزوری بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسے پورے طور پر خرچ کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں اس کی عزت کا باعث ہے۔
اس میں(فِي الْحَقِّ)
کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ اسراف و تبذیر کا گمان نہ ہو۔
(فتح الباري: 219/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 73
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1409
1409. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”قابل رشک تودوہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہواور اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی ہواور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش کی نعمت سے نوازا، وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1409]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں لفظ حسد، رشک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
رشک یہ ہے کہ انسان کسی میں اچھی صفت دیکھ کر اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔
اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے تو اسے حسد کہا جاتا ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مطلق طور پر مال جمع کرنا مذموم نہیں بلکہ قابل مذمت وہ جمع شدہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔
مال جمع کرنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اسے جمع کرنے والا قیامت کے دن اس کی باز پرس سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
اور جن احادیث میں مال جمع کرنے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حلال ذرائع سے مال جمع کیا جائے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔
(3)
زین بن منیر نے کہا ہے کہ اللہ کی راہ میں تمام مال خرچ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو، اگر کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت ہے تو شرعا ایسا کرنا جائز نہیں۔
(فتح الباري: 349/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7141
7141. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قابل رشک دو آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا وہ اسے حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالٰی نے علم وحکمت سے سرفراز کیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7141]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حسد سے مراد رشک ہے۔
کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس میں حسد کی حلال قسم کابیان ہے کیونکہ حسد اگرچہ حرام ہے لیکن دینی مصلحت کے پیش نظر ان دوخصلتوں میں جائز ہے،نیز اس میں لوگوں کو صحیح فیصلے کرنے کی رغبت دلانا مقصود ہے بشرط یہ کہ اس میں فیصلہ کرنے کی شرائط پائی جائیں اور وہ اعمال حق کی قدرت بھی رکھتا ہو۔
2۔
ان صلاحیتوں سے متصف انسان مظلوموں کی مدد کرسکتا ہے حقداروں کو ان کا حق پہنچا سکتا ہے،نیز ظالم کو ظلم سے روک کر ان کی اصلاح کرسکتا ہے اور یہ تمام امور عبادت میں شامل ہیں،نیز حدیث میں ہے:
\"اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے بشرط یہ کہ وہ ظلم نہ کرے،اگروہ ظلم پر اترآئے تو اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
\"(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2312) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7141
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7316
7316. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”قابل رشک تو دو ہی آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے راہ حق میں لٹانے کی توفیق بھی دی اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی ہو پھر وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7316]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب حکمت کو قابل رشک ٹھہرایا ہے اور حکمت سے قرآن وحدیث کا علم مراد ہے جسے ایک دوسری حدیث میں فقاہت قرار دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیروبرکت کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کر دیتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 71)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاحکام میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(باب أجر من قضى بالحكمة)
”جوحکمت کے مطابق فیصلے کرے اس کے اجروثواب کا بیان۔
“ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 3)
بہرحال حکمت کے مطابق فیصلے کرنے والا حاکم اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل تعریف ہے حتی کہ قابل رشک قرار دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7316