ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! «والذين يؤتون ما آتوا وقلوبهم وجلة»(سورة الومنون: 60) سے کیا وہ لوگ مراد ہیں جو زنا کرتے ہیں، چوری کرتے ہیں اور شراب پیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں: ابوبکر کی بیٹی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدیق کی بیٹی! اس سے مراد وہ شخص ہے جو روزے رکھتا ہے، صدقہ دیتا ہے، اور نماز پڑھتا ہے، اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اس کا یہ عمل قبول نہ ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4198]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 24 (3175)، (تحفة الأشراف: 16301)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/159، 205) (حسن)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3175
´سورۃ المومنون سے بعض آیات کی تفسیر۔` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت «والذين يؤتون ما آتوا وقلوبهم وجلة»”جو لوگ اللہ کے لیے دیتے ہیں، جو دیتے ہیں اور ان کے دل خوف کھا رہے ہوتے ہیں (کہ قبول ہو گا یا نہیں)“(المؤمنون: ۶۰)، کا مطلب پوچھا: کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں، اور چوری کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، صدیق کی صاحبزادی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں، اس کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی یہ نیکیاں قبول نہ ہوں، یہی ہیں وہ لوگ جو خیرات (بھلے کاموں) میں ایک دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3175]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جو لوگ اللہ کے لیے دیتے ہیں، جو دیتے ہیں اور ان کے دل خوف کھا رہے ہوتے ہیں (کہ قبول ہو گا یا نہیں)(المؤمنون: 60)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3175