ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا» اے اللہ! آل محمد کو بہ قدر ضرورت روزی دے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4139]
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2361
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی معاشی زندگی کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی «اللهم اجعل رزق آل محمد قوتا»”اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو صرف اتنی روزی دے جس سے ان کے جسم کا رشتہ برقرار رہ سکے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2361]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: آپ ﷺایسی زندگی گزارنا پسندکرتے تھے جو دنیوی آلائشوں اورآرام وآسائش سے پاک ہو، کیونکہ بعثت نبوی کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ لوگوں کو دنیا کے ہنگاموں، مشاغل اورزیب وزینت سے ہٹاکرآخرت کی طرف متوجہ کریں، اسی لیے آﷺ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے حق میں مذکورہ دعا فرمائی، آپ کی اس دعا سے علماء اورداعیان اسلام کو نصیحت حاصل کرناچاہئے کہ ہماری زندگی سادگی کا نمونہ اوردنیاوی تکلفات سے پاک ہو، اگراللہ ہمیں مال ودولت سے نوازے تومالدارصحابہ کرام کاکردارہمارے پیش نظرہونا چاہئے تاہم مال ودولت کا زیادہ سے زیادہ حصول ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہونا چاہئے اورنہ اس کے لیے ہرقسم کا حربہ وہتھکنڈہ استعمال کرنا چاہئے خواہ اس حربے اورہتھکنڈے کا استعمال کسی دینی کام کے آڑمیں ہی کیوں نہ ہو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2361
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2427
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! آل محمد کو اس قدر روزی عنایت فرما جو اس کی ضرورت پوری کر سکے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2427]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قوت اتنی خوراک کو کہتے ہیں جو انسان کو مرنے نہ دے یعنی جسم و جان کے رشتہ کو برقرار رکھے اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء اور داعیان دین کے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بقدر ضرورت دے تاکہ وہ کسی کے دست نگر نہ ہوں لیکن دنیوی تکلفات آرائش وآسائش اور ٹھاٹھ باٹھ سے بچ کر رہیں تاکہ غیر اور کم مال لوگوں کے لیے وہ نمونہ بنیں وہ مال و دولت کے زیادہ سے زیادہ حصول کو نصب العین نہ بنائیں لیکن ایسی زندگی سے اللہ کی پناہ مانگیں جس میں انہیں دوسروں کا دست نگر ہونا پڑے یا سرمایہ داروں کی چاپلوسی اور تملق سے کام لینا پڑے اور اپنے دینی مشاغل کے لیے ان کے پیچھے پیچھے بھاگنا پڑے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2427
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7441
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدعافرمائی،"اے اللہ!آل محمد(خاندان محمد) کارزق بقدر کفایت فرما۔"اور عمرو کی روایت میں "اللهم ارزُق"ہے،یعنی "اِجعَل" کی جگہ"اُرزُق"ہے،مقصد ایک ہی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7441]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آل سے مراد یہاں آپ کا اہل و عیال ہے، آپ نے دعا فرمائی کہ ہمیں روزی بس اتنی دے کہ اس سے زندگی کا نظام چلتا رہے، نہ اتنی تنگی ہو کہ فاقہ کشی اور پریشان حالی کی وجہ سے، اپنے متعلقہ امور اور فرائض بھی سرانجام نہ دیئے جاسکیں اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے اور نہ اتنی فراغت ہو کہ ذخیرہ کر کے رکھا جاسکے، کیونکہ امت اکثریت غربت و ناداری کی شکار ہے، اس لیے آپ نے امت کے غرباء اور ان مساکین و محتاجوں کے لیے اپنا نمونہ چھوڑا، تاکہ وہ اپنے حالات اور گزر بسر پر صبرو قناعت کرسکیں اور دوسروں کو دیکھ کر حرص وطمع یا حسد وکینہ کا شکار نہ ہوں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7441
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7441
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےدعافرمائی،"اے اللہ!آل محمد(خاندان محمد) کارزق بقدر کفایت فرما۔"اور عمرو کی روایت میں "اللهم ارزُق"ہے،یعنی "اِجعَل" کی جگہ"اُرزُق"ہے،مقصد ایک ہی ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:7441]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آل سے مراد یہاں آپ کا اہل و عیال ہے، آپ نے دعا فرمائی کہ ہمیں روزی بس اتنی دے کہ اس سے زندگی کا نظام چلتا رہے، نہ اتنی تنگی ہو کہ فاقہ کشی اور پریشان حالی کی وجہ سے، اپنے متعلقہ امور اور فرائض بھی سرانجام نہ دیئے جاسکیں اور کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے اور نہ اتنی فراغت ہو کہ ذخیرہ کر کے رکھا جاسکے، کیونکہ امت اکثریت غربت و ناداری کی شکار ہے، اس لیے آپ نے امت کے غرباء اور ان مساکین و محتاجوں کے لیے اپنا نمونہ چھوڑا، تاکہ وہ اپنے حالات اور گزر بسر پر صبرو قناعت کرسکیں اور دوسروں کو دیکھ کر حرص وطمع یا حسد وکینہ کا شکار نہ ہوں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7441
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6460
6460. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: ”اے اللہ! آل محمد کو صرف اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6460]
حدیث حاشیہ: جملہ احادیث مذکورہ کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں زیادہ عیش وآرام کی زندگی نہ گزار سکیں تو بھی ان کو شکر گزار بندہ بن کر رہنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ ہاں حلال طرائق سے طلب رزق سراپا محمود ہے اور اس طورپر جو دولت حاصل ہو وہ بھی عین فضل الٰہی ہے۔ اصحاب نبوی میں حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف جیسے مالدار حضرات بھی موجو د تھے۔ رضي اللہ عنهم أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6460
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6460
6460. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: ”اے اللہ! آل محمد کو صرف اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6460]
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی اور انداز معیشت بہت سادہ تھا،غذا بھی معمولی تھی جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے، عموماً پانی اور کھجوروں پر گزارا ہوتا، البتہ بعض اوقات کوئی تھوڑا سا گوشت بھیج دیتا تو وہ گھر میں پکا لیا جاتا ورنہ دو، ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دھواں نظر نہیں آتا تھا۔ بعض اوقات آپ کے ہمسائے جن کے پاس دودھ دینے والے جانور ہوتے تھے وہ دودھ بھیج دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اپنے اہل خانہ کو پلا دیتے تھے، کبھی بھنی ہوئی بکری آپ کے سامنے نہ دیکھی گئی، بہرحال کھانے کی چیزیں فراوانی کے ساتھ میسر نہ تھیں۔ (2) ہمارے گھروں میں کئی کئی نرم گرم بستر ہیں لیکن لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بستر تھا جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھیں جبکہ مدنی زندگی میں آپ کے ذرائع معاش حسب ذیل تھے: ٭مال غنیمت: جہاد فی سبیل اللہ کا ایک ثمرہ مال غنیمت بھی ہے۔ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت سے اس امت کے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا۔ مال غنیمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچواں حصہ ملتا جو بیت المال کا حصہ ہوتا، تاہم اس سے آپ کی ضروریات بھی پوری کی جاتی تھیں۔ بنونضیر کے باغات، خیبر کی زمین اور باغ فدک اسی مد سے تھا۔ خیبر کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم تھی: دو حصے عام مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ آپ کے اہل وعیال پر خرچ ہوتا تھا۔ ٭ مال فَے: جو مال دشمن سے لڑائی کے بغیر حاصل ہوتا اسے مال فَے کہا جاتا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہوتا تھا۔ اس میں آپ کو اختیار تھا کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ باغ فَدَک جو بنونضیر کی جلاوطنی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اور وہ بطور مال فَے آپ ہی کے پاس تھا، آپ اس میں کچھ حصہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے اور کچھ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ٭بیت المال میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ مقرر تھا۔ آپ نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر مزارعت کے لیے دے رکھی تھی، اس کی پیداوار سے گزراوقات ہوتا، کھجوریں فراوانی سے تھیں۔ جب خیبر فتح ہوا تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے لیے اَسّی وسق کھجور اور بیس وسق جَو سالانہ مقرر ہوئے۔ ٭غیر ملکی بادشاہوں کے تحائف کے علاوہ اہل مدینہ کے غیر مسلم لوگوں کی طرف ہدایا کے ساتھ غیر ملکی حکمرانوں کے تحائف بھی شامل ہیں۔ ٭ایک یہودی کا بیش بہا تحفہ: مخیریق قبیلۂ بنو قینقاع کا ایم امیر ترین یہودی تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عقیدت تھی۔ اس کے سات باغ تھے۔ وہ آپ کی معیت میں غزوۂ احد میں شریک تھا۔ اس نے غزوۂ اُحد میں شرکت کے وقت وصیت کی تھی کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام باغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہوں گے۔ وہ اس غزوے میں قتل ہو گیا تو اس کے تمام باغات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آگئے۔ (طبقات الکبریٰ: 501/5)(3) رسول اللہ نے دولت کی فراوانی کے باوجود اپنے لیے سادگی اور قناعت کو پسند فرمایا اور عجزو انکسار کو اوڑھنا بچھونا اور ہر طرح کے ناجائز ذرائع آمدنی سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درویشانہ زندگی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی مانگی تھی: ”اے اللہ! ہمیں کھانا اتنا میسر ہو جس سے صرف زندگی باقی رہے۔ “ اور آپ دوسروں پر ایثار اور ہمدردی کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت کے طور پر بہت سے غلام، لونڈیاں آئے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس گئیں تاکہ گھر کی خدمت گزاری کے لیے کوئی نوکرانی لائیں۔ آپ نے فرمایا: ”بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں، پھر آپ نے انہیں وظیفہ بتایا جو تسبیح فاطمہ کے نام سے مشہور ہے۔ (مسند أحمد: 106/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6460